• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ آج سے ٹھیک 59برس قبل پانچ ستمبر 1965ء کی ایک تاریک رات تھی جب پاکستانی شہری اپنے گھروں میں آرام فرما تھے کہ اچانک ہی توپوں، گولیوں اور جنگی جہازوں کی گڑگڑاہٹ میں وطن عزیز کو جارحیت کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، تاہم پڑوسی ملک کو یہ خبر نہ تھی کہ ہماری سرحدوں کے محافظ افواجِ پاکستان کے بہادر جوان دھرتی ماتا کے تقدس کے تحفظ کیلئے ہر پل چوکس و تیار کھڑےتھے اور پھر جب 6ستمبر 1965ء کا سورج طلوع ہوا تو چشم فلک نےپاک فوج کی جانب سے بہادری، عزم ، حوصلے اور قربانی کا ایک ایسا اچھوتا نظارہ دیکھا جو رہتی دنیا تک عالمی جنگی تاریخ میں امر ہوگیا ، آج جنگِ ستمبر کو گزرے چھ دہائیاں بیتنے کو آئی ہیں لیکن دنیا پاکستانی قوم اور افواجِ پاکستان کی شجاعت، مردانگی اور جذبہ شہادت کا اعتراف کرتی ہے اوردنیا بھر کے عسکری دفاعی نصاب میں پاکستان کی جانب سے پینسٹھ کی جنگ میں ملکی دفاع کیلئے اختیار کی گئی عسکری حکمت عملی کا بطور خاص تذکرہ کیا جاتا ہے ۔آج بھی ہمارے درمیان ایسے بے شمار بڑے بزرگ موجود ہیں جو جنگِ ستمبر کو یاد کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں، وہ اس ناقابلِ فراموش امر کے چشم دید گواہ ہیں کہ آزادی کے صرف اٹھارہ برس بعد جب ہمارے پیارے وطن پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری پامال کرنے کی کوشش کی گئی تو ہر پاکستانی کوبس ایک ہی فکر تھی کہ اْسےاپنے سبز ہلالی پرچم کو ہرصورت بلند دیکھنا ہے، دشمن کی عددی برتری اور عسکری صلاحیت سے کوئی پاکستانی خائف نہ تھا،جنگ کی اطلاع پاتے ہی لوگ اپنے فوجی بھائیوں کیلئے سامانِ خوراک لیکر بارڈر کی طرف چل پڑے، اپنی دھرتی ماتا کے تحفظ کیلئے لوگ گھروں سے لاٹھیاں اور کلہاڑیاں اٹھا لائے تھے، اس زمانے میں گلوکاروں ، شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں نے حب الوطنی سے بھرپور ایسےگیت اور ترانے تخلیق کیے جو آج بھی دلوں کو گرماتے ہیں۔اگر ایک طرف بری فوج کے شیردل جوان محاذِجنگ پردشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو روکتے ہوئے پسپا ہونے پر مجبور کررہے تھے تو فضاؤں میں پاک فضائیہ اورسمندروں میں پاک نیوی کا رعب و دبدبہ دشمن پر طاری تھا۔ عالمی عسکری تاریخ میں چونڈہ کے مقام پر عسکری جھڑپ کو جنگِ عظیم دوئم کے بعد دوسری بڑی ٹینکوں کی جنگ قرار دیا جاتا ہے جس میں پڑوسی ملک کا ایک ٹینک بھی صحیح سلامت نہ بچا ، تاہم چونڈہ کو دشمن کے ٹینکوں کا قبرستان بنانے والےجنرل ٹکا خان کی قیادت میں پاک فوج کے وہ بہادر جوان تھے جو اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر سینے پر بم باند ھ کرٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔چھ ستمبر کو دشمن کی فوج نے لاہور پر قبضہ جمانے کیلئےپیش قدمی کی تو انکا سامنا دھرتی کے بہادر سپوت میجر عزیز بھٹی (شہید) سے ہواجنہوں نے اپنی جان قربان کرکے ثابت کردیا کہ پاکستانی اپنے خون سے وطن کا دفاع کرنا بخوبی جانتے ہیں۔اعلانِ جنگ ہوتے ہی پاک نیوی نے پاکستان کے بحری اور تجارتی روٹس کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے دشمن کے بحری جہازوں کی نقل و حرکت محدود کردی ، ائیر مارشل اصغر خان اور ائیر مارشل نور خان جیسے مایا ناز پاکستانی ہوا باز اپنے اہداف کے حصول کیلئے دشمن پر جھپٹ پڑے، سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کومار گراکر عالمی ریکارڈ قائم کردیا، سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی، منیر الدین اور علاؤالد ین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا لیکن وطن کی حرمت پر آنچ نہ آنے دی۔جنگ ستمبر کا ایک اور روشن پہلو پاکستان کی محب وطن غیرمسلم اقلیتوں کا دفاع وطن کیلئے بھرپور کردار بھی تھا، ایئر کموڈور بلونت کمار داس پاک فضائیہ کا ایک ہندو سینئر آفیسر تھا جس نے جنگ ستمبر میں شجاعت کے جوہر دکھائے، اسی طرح گروپ کیپٹن سیسل چوہدری ،میجر جنرل جولیان پیٹر، میجر جنرل افتخار کھوکھر، میجر جنرل قیضاد سپاری والہ، کیپٹن ہرچرن سنگھ، اشوک کمار سمیت ایسے بے شمار غیرمسلم پاکستانی فوجیوں نےعملی طور پر ثابت کردیا کہ اپنی دھرتی ماتا پاکستان کے تحفظ کیلئے سردھڑکی بازی لگاناہمارے خون میں شامل ہے۔پینسٹھ کی جنگ نے طول پکڑا تو اس زمانے کی دونوں سپر پاورز امریکہ اور سویت یونین تشویش میں مبتلا ہوگئیں اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پیش کردی گئی، پاکستان کے نوجوان وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کا موقف عالمی برادری کے سامنے واضح طور پر پیش کیا، بھٹو صاحب نے جنگ بندی پر اظہارِ آمادگی کرتے ہوئے باور کرایا کہ اقوامِ متحدہ کومسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا ہوگابصورت دیگر پاکستان اپنے حق کیلئے ہزار سال تک لڑنے کیلئے تیار ہے۔ عالمی قوتوں کی کوشش سے آخرکار بائیس ستمبر کو باضابطہ جنگ بندی عمل میں آگئی، سرحدی محاذ ِ جنگ پر تو خاموشی چھا گئی لیکن بھٹو صاحب سفارتی سطح پر دلیرانہ اور دبنگ موقف اختیار کرنے کے باعث پاکستانی عوام کے دِلوں کی دھڑکن بن گئے، جنگ بندی کے فوراً بعد سوویت یونین نے پاکستان اور بھارت کو صلح کروانے کیلئے تاشقند مدعو کرلیا تو بھٹو صاحب وہاں بھی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے نظر آئے۔آج ستمبر جنگ کی یاد مناتے ہوئےہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اگرہم وطن کی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں تو اس کی وجہ ہماری جغرافیائی اور نظریاتی سرحدو ں کی حفاظت کیلئے پاک فوج کا چوکس جوان ہے، آج ہمارا دشمن براہ راست جنگ لڑنے کی ہمت نہ ہونے کی بناء پر غلط فہمیاں اور نفرتیں پھیلاکرہمیں اندرونی محاذ پر الجھانے کا خواہاں ہے ، آج کا تاریخ ساز دن پوری پاکستانی قوم سے تقاضا کرتا ہے کہ اپنے پیارے وطن پاکستان کو ایک پرامن، مستحکم اور مضبوط ملک میں ڈھالنے کیلئے ملکی سرحدوں کے محافظوں کا بھرپور ساتھ دیا جائے اورچھ ستمبر1965ء کی طرح آج بھی اپنی صفوں میں اتحاد ہر صورت میں برقرار رکھا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین