• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء اسلامی جمہوریہ پاکستان بلکہ امتِ مسلمہ کی تاریخ کا وہ تابناک دن ہے جس دن حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت کے منکروں، باغیوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور اس طرح جسدِ ملّتِ اسلامیہ سے اس سرطان کو کاٹ کر علیحدہ کرتے ہوئے ملتِ اسلامیہ کے جسد کو محفوظ کردیا گیا۔

۷؍ ستمبر ۲۰۲۴ء کو اس فیصلے کے پچاس سال مکمل ہورہے ہیں ۔ اس موقع پر پورے پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں اس فیصلے کی گولڈن جوبلی منائی جارہی ہے۔ جگہ جگہ کانفرنسیں، سیمینار، جلسے ،ریلیوں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔

۷؍ ستمبر کا دن ویسے ہی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس دن پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ ہوا، اس دن حضور اکرم ﷺکی عزت و ناموس کا عَلَم بلند ہوا،آئینی طورپر آپ ﷺکی ختم نبوت کا تحفظ ہوا۔ اس دن حضور اکرم ﷺکے جاںنثاروں کی قربانیاں رنگ لائیں اور عاشقانِ رسول ﷺسرخرو ہوئے۔ 

تاجدارِ ختم نبوت کی عزت و ناموس پر نقب زنی کرنے والے اور آپ ﷺکی ردائے ختم نبوت کو چھیننے والے ذلیل و رسوا ہوئے۔ اس دن پورے عالم اسلام میں پاکستان کا وقار بلند ہوا اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو خوشی و مسرت کا وہ عظیم لمحہ میسر آیا جس سے ان کے دل و دماغ مسرت و شادمانی سے جھوم اٹھے۔

آج پچاس سال کے بعد ۷؍ ستمبر کی اہمیت اور قدر و قیمت اس لیے بھی دو چند ہوجاتی ہے کہ ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء سے آج تک اس پچاس سال کے عرصے میں قادیانیوں اور ان کے سرپرستوں نے نہ صرف یہ کہ اس آئین کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس قانون کو ختم کرنے یا اسے غیر مؤثر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، جھوٹی کہانیاں گھڑیں ، اپنی خودساختہ مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹا، اپنے حقوق کی پامالی کا رونا رویا، باطل و کفر کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے انہیں ذرہ بھر امید تھی، دنیائے کفر نے بھی اپنا زور لگایا ، پاکستان کی ہر حکومت کو ڈرایا ، دھمکایا، پاکستان پر طرح طرح کی پابندیاں لگائیں، مگر تمام تر زور لگانے اور ہر طرح کی کوشش کرنے، گھٹیا اورپست ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود وہ اس قانون کو ختم کرنا تو در کنار اس میں معمولی سی تبدیلی کرنے پر بھی قادر نہ ہوسکے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور حضور اکرمﷺ کی ختم نبوت کا اعجاز ہے۔

عقیدۂ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے، اس پر ایمان لانا اسی طرح ضروری ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی اکرم ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا، کیوں کہ یہ عقیدہ قرآن کریم کی سو سے زائد آیات اور دو سو احادیث سے ثابت ہے، اُمت کا سب سے پہلا اجماع بھی اسی پر منعقد ہوا ، یہی وجہ ہے کہ ختم نبوت کا مسئلہ اسلامی تاریخ کے کسی دور میں مشکوک اور مشتبہ نہیں رہا اور نہ ہی کبھی اس پر بحث کی ضرورت سمجھی گئی، اور نہ اُمت اس عقیدے کے بارے میں کبھی دو رائے کا شکار ہوئی۔ بلکہ ہر دور میں متفقہ طور پر اس پر ایمان لانا ضروری سمجھا گیا۔

حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا اعلان در حقیقت اس اُمت پر ایک احسان عظیم ہے، اس عقیدے نے اس امت کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا ، آپ پوری دنیا میں کہیں چلے جائیں اور آپ ہر دور اور ہر عہد کی تاریخ کا مطالعہ کریں، آپ کو نظر آئے گا کہ خواہ کسی قوم، کسی زبان، کسی علاقے اور کسی عہد کا باشندہ ہو، اگر وہ مسلمان ہے اور حضور اکرم ﷺ پر اس کا ایمان ہے تو ان کے عقائد ، ان کی عبادات، ان کے دین کے ارکان، ان کے طریقے میں آپ کو یکسانیت اور وحدت نظر آئے گی، جس طرح حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں پانچ نمازیں فرض تھیں، اسی طرح آج بھی پانچ نمازیں فرض ہیں، ان کے جو اوقات حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں تھے، وہی آج بھی ہیں۔ اسی طرح روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر احکام بھی سب کے لیے یکساں ہیں۔ یہ سب نتیجہ ہے ختم نبوت کا، اتمام نبوت کا، اکمال شریعت کا۔

عقیدۂ ختم نبوت اس امت کی بقا کا ضامن ہے، جب تک یہ ختم نبوت کا عقیدہ موجود ہے، یہ امت ، امت رہے گی۔ اگر یہ عقیدہ نہ رہا تو پھر یہ امت ، اُمت بھی نہیں رہے گی بلکہ امتیں جنم لیں گی اور امتیں بھی گروہ اور جماعتیں بنیں گی، ایک کھیل تماشا ہوگا، آئے دین کسی گوشے اور کونے سے ایک نبی اٹھے گا، ایک ایک شہر سے کئی کئی نبی اُبھریں گے، ان میں مناقشت چلے گی، ہر ایک اپنے دعوے کو مؤثر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا اور اپنے ماننے والوں کی تعداد بڑھائے گا اور پھر ان میں مقابلہ بازی ہوگی اور اس طرح اس امت کا امت پنا ختم ہوجائے گا۔ 

اسی لیے علامہ اقبال نے یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کی:’’دین و شریعت تو قائم ہیں کتاب و سنت سے ، دین و شریعت کی بقا اور دین و شریعت کا استمرار اور وجود مربوط ہے کتاب و سنت سے، جب تک کتاب و سنت ہے، دین باقی ہے، دین و شریعت باقی ہے، لیکن امت کی بقاء ختم نبوت کے عقیدے سے ہے۔‘‘(بحوالہ خطباتِ مفکر اسلام، جلد ۵، ص ۱۰۹)

اسلام کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے، اس کلمے کے دو جز ہیں، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار، محمد رسول اللہ ﷺ کا اعتراف و اقرار۔ اس اعتراف و اقرار کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مدعی الوہیت کا وجود ناقابل برداشت ہے، اسی طرح محمد رسول ﷺ کے بعد کسی مدعی نبوت کا بساط نبوت پر قدم رکھنے کی جرأت کرنا بھی لائق تحمل نہیں، یہی ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ کہلاتا ہے۔ جس پر صدر اول سے آج تک امتِ مسلمہ قائم رہی ہے۔

اس عقیدے پر پورے دین کی عمارت قائم ہے، اسی میں امت کی وحدت کا راز مضمر ہے ،یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کسی نے اس عقیدے میں نقب لگانے کی کوشش کی یا اس مسئلے سے اختلاف کرنے کی کوشش کی ،اسے امت ِمسلمہ نے سرطان کی طرح اپنے جسم سے علیحدہ کردیا۔ اس لیے ختم نبوت کا تحفظ یا بالفاظ دیگر منکرین ختم نبوت کا استیصال دین کا ہی ایک حصہ ہے اور مسلمانوں نے ہمیشہ اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھا ہے۔

مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ایک نئے فتنے کی بنیاد رکھی۔ اپنے ماننے والوں کو مسلمان کہا اور نہ ماننے والے تمام مسلمانوں کو کافر کہا۔ قادیانیت دین محمدی کے خلاف ایک بغاوت ہے ، مرزا غلام احمد قادیانی نے اسلام کے مقابلے میں ایک نیا متوازی دین لاکھڑا کیا ، قادیانی نظریات کا خلاصہ یہ ہے:٭…قادیانیت اسلام کے متوازی ایک نیا دین ہے۔٭…نبوت محمدیہ کے متوازی ایک نئی نبوت۔٭…قرآن کریم کے متوازی نئی وحی۔٭…اسلامی شعائر کے متوازی قادیانی شعائر۔٭…امت محمدیہ کے متوازی ایک نئی امت٭…مسلمانوں کے مکہ مکرمہ کے مقابلے میں نیا مکۃ المسیح٭…مدینہ منورہ کے مقابلے میں مدینۃ المسیح٭…اسلامی حج کے مقابلے میں ظلی حج

٭…اسلامی خلافت کے مقابلے میں قادیانی خلافت٭…امہات المؤمنین کے مقابلے میں قادیانی ام المؤمنین۔ وغیرہ وغیرہ

مرزا محمود احمد (قادیانیوں کے خلیفۂ سوم) نے اسلام اور قادیانیت کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا تھا:’’حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں، آپ نے فرمایا کہ یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح اور چند مسائل میں ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات، رسول اللہ ﷺ، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، غرض کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ان سے (مسلمانوں سے) اختلاف ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ میاں محمود احمد خلیفہ قادیان مندرجہ الفضل ۳۰؍ جولائی ۱۹۳۸ء)

اس طرح مرزا قادیانی کی اس نئی نبوت اور نئے دین کو نہ ماننے والے مسلمان کافر اور جہنمی قرار پائے، چنانچہ مرزا قادیانی کا الہام ہے:’’جو شخص تیری پروا نہ کرے گا، اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے۔‘‘(اشتہار معیار الاخیار مندرجہ تبلیغ رسالت جلد نہم ص: ۲۷)

مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے لڑکے مرزا محمود احمد لکھتے ہیں:’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ (آئینہ صداقت، ص : ۳۵)

مرزا قادیانی کے منجھلے لڑکے مرزا بشیر احمد لکھتے ہیں کہ:’’ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ ؑکو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا، یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا اور یا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعود (مرزا قادیانی) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔‘‘(کلمۃ الفصل، ص :۱۱۰)

بنیادی طور پر قادیانیت ہمیشہ انگریز کی حلیف اور اسلام اور مسلمانوں کی حریف ہے۔ قرآن کریم، یہود او رمشرکین کو مسلمانوں کا سب سے بد تر دشمن قرار دیتا ہے، مگر ان کے بعد قادیانی مسلمانوں کے بد ترین دشمن ہیں۔ قادیانیوں کے خلیفۂ دوم مرزا محمود نے اپنے مریدوں کو اسلام کی مخالفت کی بار بار تاکید کی ہے، مثلاً:الف:… ’’ساری دنیا ہماری دشمن ہے، اور جب تک ہم ساری دنیا کو احمدیت میں شامل نہ کرلیں، ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں۔‘‘ب:… ’’ہماری بھلائی کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ ہم تمام لوگوں کو اپنا دشمن سمجھیں۔‘‘ (الفضل، ۲۵؍اپریل ۱۹۳۰ء)

ج:… ’’وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود (غلام احمد قادیانی ) پر ایمان رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ سب کچلے جائیں گے صرف ہم باقی رہیں گے۔‘‘ (الفضل ، ۳؍اپریل ۱۹۲۸ء)

د:… ’’جب تک تمہاری بادشاہت قائم نہ ہوجائے تمہارے راستے کے کانٹے دور نہیں ہوسکتے۔‘‘(الفضل، ۲۵؍ اپریل ۱۹۳۰ء)

قادیانیوں کی اسلام دشمنی کا ایک مظہر یہ ہے کہ مسلمانوں پر جب بھی افتاد پڑی تو قادیانیوں نے اس پر خوشی کے شادیانے بجائے۔ (تحفہ قادیانیت، جلد سوم ، ص ۴۷۶، ۴۷۷)

قادیانیوں نے ازواجِ مطہرات کے مقابلے میں مرزا کی بیوی کو ام المؤمنین کا لقب دیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقابلے میں مرزا کے ساتھیوں کو صحابہ سے تعبیر کیا، مرزا کے خلیفہ اول نور الدین کو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے تشبیہ دی، گنبد خضراء کے مقابلے میں قادیان کا گنبد بیضا پیش کیا۔

۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت اگرچہ کچل دی گئی، لیکن اس سے قادیانیت کو اپنی قدر و قیمت معلوم ہوگئی، اور اس کا غلغلہ تھم گیا، نیز قدرت کی بے آواز لاٹھی نے ان تمام لوگوں سے انتقام لیا جنہوں نے تحریک ختم نبوت سے غداری کی تھی، خواجہ ناظم الدین ، ظفر اللہ خان قادیانی کو وزارت خارجہ سے الگ کرنے پر آمادہ نہ تھے، قدرت نے قادیانی وزارت خارجہ کے ساتھ خواجہ ناظم الدین کی وزارت عظمی پر بھی خط تنسیح کھینچ دیا، خواجہ صاحب بڑے بے آبرو ہوکر کوچہ وزارت سے نکلے اور آخر تک ان کا سیاسی وقار بحال نہ ہوسکا، پنجاب سے دولتانہ حکومت رخصت ہوئی، اور پھر کبھی ان کو حکومت کا خواب دیکھنا نصیب نہ ہوا۔

۱۹۷۱ء کے انتخابات میں قادیانی، مسٹر بھٹو کے حلیف تھے اور انہوں نے بھٹو صاحب کو جتوانے میں ہر ممکن تعاون کیا تھا۔ چنانچہ جب پاکستان کو دو ٹکڑے کرکے مسٹر بھٹو تخت اقتدار پر براجمان ہوئے تو قادیانیوں کے لیے ایک با پھر مسٹر ظفر اللہ خاں کا دورلوٹ آیا۔ انہوں نے نہ صرف تعلیم گاہوں میں قادیانی ارتداد کی تبلیغ شروع کردی۔ بلکہ مسلمانوں کے گھروں اور مسجدوں میں بھی اشتہارات اور پمفلٹ پھینکنے شروع کردئیے۔ 

قادیانی نجی مجلسوں میں مسلمانوں کو دھمکیاں دینے لگے کہ ان کی حکومت عنقریب قائم ہونے والی ہے، قادیانیوں کے خلیفہ ربوہ نے اشاروں ، کنایوں میں قادیانیوں کو خاص قسم کی تیاریوں کا حکم دے دیا، لیکن قدرت ایک بار پھر ان کے غرور کو خاک میں ملانا چاہتی تھی۔ قادیانیوں نے ربوہ اسٹیشن پر نشترکالج ملتان کے طلباء پر اپنی قوت کا مظاہرہ کیااور نوجوان طلباء کو لہولہان کردیا، اس سے پورے ملک میں قادیانیوں کی اسلام دشمنی کے خلاف نفرت و بے زاری کی تحریک پیدا ہوئی اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ:

٭…قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔٭…ان کو کلیدی مناصب سے برطرف کیا جائے۔٭…ان کی اسلام کش سرگرمیوں کا تدارک کیا جائے۔تحریک کو نظم و ضبط کا پابند رکھنے کے لیے ایک ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ وجود میں آئی، جس میں ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے شرکت کی۔ (تحفہ قادیانیت، جلد سوم، ۴۷۹، ۴۸۱)

۲۲؍ مئی ۱۹۷۴ء کو نشتر میڈیکل کالج کے طلباء چناب ایکسپریس سے پشاور سیر و تفریح کی نیت سے جارہے تھے جب گاڑی ربوہ اسٹیشن پر رُکی تو معمول کے مطابق قادیانیوں نے مسافروں میں اپنا لٹریچر تقسیم کیا تو یہ طلباء بپھر گئے اور انہوں نے قادیانیت کے خلاف نعرے لگائے ، توتکار بھی ہوئی مگر کسی حادثے کے رونما ہونے سے قبل ہی گاڑی روانہ ہوگئی۔ 

اس نعرہ بازی کو ربوہ والوں نے اپنے اختیارات میں مداخلت سمجھا۔چونکہ واپسی کی سیٹیں بھی پہلے سے بک تھیں اس لیے ربوہ کے ارباب اختیار نے پہلے سے معلومات حاصل کیں اور ۲۹؍ مئی ۱۹۷۴ء کو جب گاڑی ربوہ اسٹیشن پہنچی تو قادیانی گماشتوں نے مرزا طاہر کی سربراہی میں ان طلباء پر حملہ کیا، ان کو مارا پیٹا ، تشدد کیا جس سے کئی طلباء زخمی ہوگئے۔ 

لائل پور (موجودہ فیصل آباد) گاڑی پہنچنے سے پہلے واقعے کی اطلاع وہاں پہنچ چکی تھی۔ اطلاع ملتے ہی سیکڑوں کی تعداد میں لوگ لائل پور اسٹیشن پر جمع ہوچکے تھے۔ احتجاج ہوا، مسلمانوں کی طرف سے واقعے کی تحقیق کرنے، ذمہ داروں کو سزا دینے اور ربوہ کو کھلا شہر قرار دینے کے مطالبات کیے گئے، مولانا تاج محمود نے طلباء کو تسلی دی، یہ واقعہ ۱۹۷۴ء کی تحریک کی بنیاد بنا۔

محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ جو اس وقت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر تھے۔ آپ کی امارت کو ابھی دوماہ نہیں گزرے تھے، کیوں کہ 9؍اپریل1974ء کو آپ امیر منتخب ہوئے تھے اور اس وقت آب وہوا کی تبدیلی کے لیے سوات تشریف لے گئے تھے، آپ کو اطلاع دی گئی، آپ فوراً پنڈی پہنچے ، حضرت نے پنڈی پہنچ کر مولانا تاج محمود ، مولانا محمد شریف جالندھری، مولانا مفتی محمود، مولانا عبید اللہ انور ، نواب زادہ نصر اللہ خان، آغا شورش کاشمیری سے فون پر رابطے کیے، حالات معلوم کیے، اور ان حضرات پر حضرت نے آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی تشکیل پر زور دیا، تمام حضرات نے حضرت بنوریؒ کی تائید کی اور آپ سے درخواست کی، کیوں کہ آپ مجلس تحفظ ختم نبوت کے صدر ہیں اور یہی جماعت اس مسئلے میں داعی ہے، اس لیے آپ ہی مجلس عمل کا اجلاس بلائیں، چنانچہ حضر ت بنوریؒ نے تمام علماء اور سرکردہ حضرات سے رابطے شروع کردئیے، تحریک کو منظم کرنے ، پروان چڑھانے اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں، مجاہدین سربکف میدان میں اتر آئے، اہل اللہ نے اللہ رب العزت کے حضور سجدہ ریز ہوکر گڑگڑا کر رحمتِ خداوندی کو مدد کے لیے پکارا اور یوں اہل حق کا پورا قافلہ قادیانیت کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔ 

خود حضر ت بنوری ؒنے جہاں ایک طرف امتِ مسلمہ کو متحد کرنے اور قوم کے منتشر ٹکڑے جمع کرنے کے لیے رات دن ایک کردئیے، وہاں بارگاہِ خداوندی میں تضرع ،ابتہال ، گریہ وزاری کا سلسلہ تیز سے تیز کردیا، اس کے نتیجے میں ایسی تحریک چلی جس میں پوری قوم یک جان اور متحد تھی۔ پورے برصغیر کی تاریخ میں ایسی کامیاب اور عظیم النظیر تحریک کی مثال نہیں ملتی۔بلاشبہ 29؍مئی سے 7؍ ستمبر تک ،سو دن بنتے ہیں جو بر صغیر کی مذہبی تاریخ میں سو سال کے برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس وقت کے وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو چونکہ قادیانیوں کے حلیف رہ چکے تھے، قادیانیوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دئیے تھے، اس لیے فطری طور پر اس وقت کی حکومت نے مسئلے کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹالنا چاہا، تحریک کو کچلنے اور کمزور کرنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے، اخبارات پر پابندی لگائی گئی، علماء ، طلباء ، وکلاء اور دیگر تحریک میں حصہ لینے والوں کو گرفتار کیا گیا، ان کے ساتھ غیر شریفانہ سلوک کیا گیا،لیکن تحریک کے قائدین نے صبر و تحمل سے کام لیا، حکومت اور قادیانیوں کی طرف سے پر تشدد کارروائیوں کے باوجود تحریک کو تشدد سے بچاتے ہوئے پر امن رکھا۔

 حضرت بنوری رحمہ اللہ نے اس کا مختصر تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے: ’’بہر حال یہ طے کیا گیا کہ پر امن طریقے پر تحریک کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے پوری جدو جہد کی جائے اور قادیانیوں کا بائیکاٹ جاری رکھا جائے۔ تحریک کو سول نافرمانی سے بہر قیمت بچایا جائے۔ ادھر مجلس عمل کی پالیسی تو یہ تھی کہ حکومت سے تصادم سے بہر صورت گریز کیا جائے۔ ادھر حکومت نے ملک کے چپے چپے میں دفعہ ۱۴۴ ؍نافذکردی۔ 

پریس پر پابندیاں عائد کردیں، انتظامیہ نے اشتعال انگیز کارروائیوں سے کام لیا اور مسلمانوں کو گرفتار کرنا شروع کیا چنانچہ فیصل آباد، کھاریاں ضلع گجرات وغیرہ میں دردناک واقعات رونما ہوئے ۔ جن کو مظلومانہ صبر کے ساتھ برداشت کیا گیا۔ صرف ایک شہر اوکاڑہ میں ان مظالم کے خلاف احتجاج کے طور پر بارہ دن مکمل اور مسلسل ہڑتال ہوئی۔ جگہ جگہ لاٹھی چارج کیا گیا۔

اشک ریز گیس کا استعمال بڑی فراخدلی سے کیا گیا۔ مجلس عمل کی تلقین تمام مسلمانوں کو یہی تھی کہ صبر کریں اور مظلوم بن کر حق تعالیٰ کی رحمت اور غیبی تائید الٰہی کے منتظر رہیں۔ قریباً پورے سو دن تک ان حالات کا مقابلہ کیا گیا۔ اور تمام سختیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔‘‘(احتساب قادیانیت، صفحہ ۳۲۸)

بالآخر مسلمانوں کے جذبات و مطالبات کے سامنے حکومت نے ہتھیار ڈال دئیے اور بھٹو صاحب نے مسئلےکو قانونی طور پر حل کرنے اور اس کے طریقۂ کار پر غور کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دیتے ہوئے یہ مسئلہ اس کے سپرد کردیا۔ قادیانیوں کے اس وقت کے خلیفہ مرزا ناصر کو اس کی درخواست اور مطالبے پر تحریری اور زبانی اپنا مؤقف پیش کرنے کی اجازت دی، قادیانی اور لاہوری پارٹی دونوں نے اپنا اپنا مؤقف پیش کیا ان پر جرح ہوئی، بالآخر اس کمیٹی نے تمام تر بحث و مباحثہ ’سوال وجواب‘ جرح و تنقید کے بعد ترمیمی بل کی منظوری کی سفارش کی اور ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بل پیش ہوا، تمام قانونی مراحل سے گزار کر اس پر رائے شماری ہوئی اور اس وقت کے قومی اسمبلی کے اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان نے پانچ بج کر ۵۲؍ منٹ پر اعلان کیا کہ بل کے حق میں ایک سو تیس ووٹ آئے ہیں، جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا۔اسی دن شام کو ساڑھے سات بجے وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ نے یہ بل سینٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا۔

یہاں بھی دستوری مراحل سے گزارتے ہوئے بل پر رائے شماری ہوئی، رائے شماری کے بعد اس وقت کے سینٹ کے چیئرمین نے آٹھ بج کر چار منٹ پر اعلان کیا کہ بل کی حمایت میں اکتیس ووٹ آئے ہیں جبکہ اس کے خلاف کوئی ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔ اس طرح دونوں ایوانوں سے یہ بل منظور ہوکر آئین کا حصہ بن گیا جس میں قادیانیوں اور لاہوریوں دونوں گروپ کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ان کا نام غیر مسلموں کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔

قادیانی مسئلے کا فیصلہ کرنے کے لیے قومی اسمبلی نے سارے ایوان پر جو مشتمل خصوصی کمیٹی بنائی تھی، اس خصوصی کمیٹی نے ۲۸؍ اجلاس منعقد کیے اور بحیثیت مجموعی ۹۶ گھنٹے غور کیا۔ کمیٹی کے سامنے ربوہ جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے ۴۱؍ گھنٹے اور ۵۰؍ منٹ تک شہادت قلمبند کرائی اور ان کا بیان گیارہ دن جاری رہا۔ لاہوری جماعت کے سربراہ پر دو اجلاس میں بحیثیت مجموعی ۸؍ گھنٹے ۲۰؍ منٹ تک جرح ہوئی، خصوصی کمیٹی کے چیئرمین قومی اسمبلی کے اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان تھے۔ اس پوری تحریک کی واقعاتی ترتیب درج ذیل ہے۔

واقعات کی ترتیب:

٭…۲۲؍ مئی ۱۹۷۴ء کو طلباء کے وفد کی ربوہ اسٹیشن پر قادیانیوں سے توتکار ہورئی۔٭…۲۹؍ مئی کو بدلہ لینے کے لیے قادیانیوں نے ربوہ اسٹیشن پر طلباء پر قاتلانہ ، سفاکانہ حملہ کیا۔٭…۳۰؍ مئی کو لاہور اور دیگر شہروں میں ہڑتال ہوئی۔٭… ۳۱؍ مئی کو سانحہ ربوہ کی تحقیقات کے لیے صمدانی ٹریبونل کا قیام عمل میں آیا۔٭…۳؍ جون کو مجلس عمل کا پہلا اجلاس راولپنڈی میں منعقد ہوا۔٭…۹؍ جون کو مجلس عمل کا کنونیئر لاہور میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒکو مقرر کیا گیا۔٭…۱۳؍ جون کو وزیر اعظم نے نشری تقریر میں بجٹ کے بعد مسئلہ قومی اسمبلی کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔٭…۱۴؍ جون کو ملک گیر ہڑتال ہوئی۔٭…۱۶؍ جون کو مجلس عمل کا لائل پور میں اجلاس ہوا، جس میں حضرت بنوری ؒکو امیر اور مولانا محمود احمد رضویؒ کو سیکرٹری منتخب کیا گیا۔٭…۳۰؍ جون کو قومی اسمبلی میں دو قرار دادیں پیش ہوئیں، ایک اپوزیشن کی طرف سے اور دوسری گورنمنٹ کی طرف سے ، جن پر غور کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی میں تبدیل کردیا گیا۔

٭…۲۴؍ جولائی کو وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ جو قومی اسمبلی کا فیصلہ ہوگا، ہمیں منظور ہوگا۔٭…۳؍ اگست کو صمدانی ٹریبونل نے تحقیقات مکمل کرلیں۔٭…۵؍ اگست سے ۲۳؍ اگست تک وقفوں سے مکمل گیارہ روز مرزا ناصر پر قومی اسمبلی میں جرح کی گئی۔٭…۲۰؍ اگست کو صمدانی ٹریبونل نے اپنی رپورٹ سانحہ ربوہ سے متعلق وزیر اعلیٰ کو پیش کی۔٭…۲۲؍ اگست کو وزیر اعلیٰ پنجاب نے صمدانی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔٭…۲۴؍ اگست کو وزیر اعظم نے فیصلے کے لیے ۷؍ ستمبر کی تاریخ مقرر کی۔٭…۲۷، ۲۸؍ اگست کو لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔٭…یکم ستمبر کو لاہور شاہی مسجد میں ملک گیر ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔٭…۵،۶؍ ستمبر کو اٹارنی جنرل نے قومی اسمبلی میں عمومی بحث کی اور مرزائیوں پر جرح کا خلاصہ پیش کیا۔٭…۶؍ ستمبر کو مجلس عمل کی راولپنڈی میں ختم نبوت کانفرنس، وزیر اعظم سے ملاقات (اور فیصلہ)٭…۷؍ ستمبر کو قومی اسمبلی نے فیصلے کا اعلان کیا کہ مرزا قادیانی کے ماننے والے ہر دو گروپ غیر مسلم ہیں۔ (تحریک ختم نبوت ، جلد ۳، ص ۴۷۷،۴۷۸)

اس آئینی ترمیم کے بعد اس پر قانون سازی ہونی چاہیے تھی، لیکن بوجودہ اس پر قانون سازی نہ ہوسکی۔ ذو الفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت ختم ہوگئی، ضیاء الحق کا مارشل لاء آگیا۔ ۱۹۸۴ء میں تحریک چلی جس کے نتیجے میں ضیاء الحق نے ۲۶؍اپریل ۱۹۸۴ء کو امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کی رو سے:

٭…قادیانی و لاہوری خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔٭…قادیانی و لاہوری مرزا قادیانی کے دیکھنے والوں کو ’’صحابہ ‘‘نہیں کہہ سکتے۔٭…قادیانی و لاہوری گروپ کے سربراہ خود کو ’’امیر المؤمنین ‘‘نہیںکہہ سکتے۔٭…قادیانی و لاہوری گروپ کے سربراہ خود کو ’’خلیفۃ المسلمین ‘‘نہیں کہہ سکتے۔٭…قادیانی و لاہوری، مرزا قادیانی کے دیکھنے والوں کو ’’رضی اللہ عنہ ‘‘نہیں کہہ سکتے۔٭…قادیانی و لاہوری مرزا قادیانی کی بیوی کو ’’اُم المؤمنین ‘‘نہیں کہہ سکتے۔٭…قادیانی و لاہوری گروپ مرزا قادیانی کے خاندان کو ‘‘اہل بیت ‘‘نہیں کہہ سکتے۔٭…قادیانی و لاہوری گروپ اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد ‘‘نہیں کہہ سکتے۔٭…قادیانی و لاہوری عبادت کے لیے ’’اذان ‘‘نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے کہ اذان مسلمانوں کا شعار ہے اور قادیانی کافر ہیں۔٭…قادیانی و لاہوری اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے، نہ ایسا باور کراسکتے ہیں۔٭…قادیانی و لاہوری اپنے مذہب (قادیانیت) کو اسلام نہیں کہہ سکتے۔٭…قادیانی و لاہوری اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر نہیں کرسکتے، نہ ہی دوسروں کو قادیانیت قبول کرنے کی دعوت دے سکتے ہیں۔اگر وہ ایسا کریں گے تو تین سال کی سزا اور جرمانہ کے مستوجب سزا ہوں گے۔ ‘‘ (تذکرہ خواجہ خواجگان، ص ۱۱۵ تا ۱۱۶)

یہ بھی قارئین کے علم میں رہنا چاہیے کہ بعد میں کئی مرتبہ پاکستان کی پارلیمنٹ ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم کی توثیق کرچکی ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا، ایک بار نہیں چار بار ، ایک مرتبہ ۱۹۷۴ ءمیں دوسری بار جب صدرضیاء الحق نے ۱۹۸۴ میں آرڈیننس پاس کیا اور بعد میں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی ، تیسری مرتبہ جب یوسف رضا گیلانی کے دور میں پارلیمنٹ نے پورے دستور پر نظر ثانی کی اور میاں رضا ربانی کی سربراہی میں کمیٹی نے طے کیا کہ دستور میں ختم نبوت سے متعلقہ دفعات جوں کی توں بحال رہیں گی تو پارلیمنٹ نے اس کی توثیق کرتے ہوئے قادیانیوں کی سابقہ دستوری حیثیت بحال رکھی۔ چوتھی مرتبہ جب انتخابی قواعد و ضوابط میں ترامیم کے متنازع بل سے یہ مسئلہ پھر اٹھ کھڑا ہوا تو پوری پارلیمنٹ نےاس پر غور و خوض کے بعد متفقہ اعلان کیا کہ قادیانیوں کی حیثیت وہی رہے گی ،جو ۱۹۷۴ء کی پارلیمنٹ نے طے کی تھی۔ مختلف مواقع پر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے چار مرتبہ اس قومی فیصلے کا اعلان کیا۔

اجتماع کی وساطت سے ہم قادیانیوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ ایک نئی نبوت کے ماننے کے بعد تم نے اپنا راستہ خود مسلمانوں سے علیحدہ کرلیا ہے اور اس کا تم خود بھی اقرار کرتے ہو ، اس لیے تمہارے لیے دو ہی راستے ہیں، اگر تم اس نئی خود ساختہ نبوت کے ماننے پر بضد ہو تو اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ قوم اور اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرلو۔ مسلمانوں میں گھسنے کی ناکام کوشش مت کرو اور اگر اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرنا چاہتے ہو تو راستہ کھلا ہے۔ 

مرزا غلام احمدقادیانی کی خود ساختہ نبوت کا انکار کرکے خاتم الانبیاء حضور اکرم ﷺ کے دامن سے وابستہ ہوجائو ،بلکہ ہم انتہائی دل سوزی اور اخلاص کے ساتھ تمام قادیانیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ تم ایک طویل عرصے سے دجل و تلبیس کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہو ، غلط تاویلات کرکے تم خود تذبذب کا شکار ہو، آئو سچے دل سےتوبہ کرکےاور عقیدۂ ختم نبوت پر ایمان لاؤ اوراسلام کے دامن عافیت اور ختم المرسلین ﷺکی چادرِ رحمت کے سایے میں آکر سکون حاصل کرو۔ مسلمان تمہیں سینے سے لگانے کے لیے تیار ہیں۔