کراچی میں رہائش پذیر احسان اللہ نامی ایک کاروباری شخص کو گزشتہ ماہ کی تین تاریخ کو ان کے موبائل فون پر ایک پیغام موصول ہوا:’’ آپ نے جو پارسل لاہور بھیجا تھا وہ اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکا ہے، مزید تفصیلات کے لیے نیچے دیے گئے لِنک پرکِلک کریں۔‘‘چوں کہ ان کا کاروبار ایسا ہے کہ وہ اکثر مختلف شہروں میں مصنوعات کےپارسل بھیجتے رہتے ہیں، لہذا انہوں نے سوچا کہ ممکن ہے کہ ان کے کسی ملازم نے لاہور پارسل بھیجا ہو اور وہ کسی وجہ سے منزل پر نہ پہنچا ہو۔
انہیں اس بارے میں جاننے کی جستجو ہوئی کہ ایسا ہونے کی وجہ کیا ہے۔اسی جستجو میں انہوں نے مذکورہ لِنک پر کلک کردیا۔اُن کے کِلک کرنے کی دیر تھی کہ فوری طورپر اُن کا موبائل بند ہوگیا۔ انہوں نے سوچا کہ شاید چارجنگ ختم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، چناں چہ انہوں نے فون کو دوبارہ آن کرنے کی کوشش کی ،لیکن وہ آن نہیں ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے فون کو چارجنگ پر لگادیا اور خود معمول کے کام میں مصروف ہوگئے۔
اور وہ لُٹ گئے۔۔۔۔
تقریبانصف گھنٹہ گزر جانے کے بعد انہیں ایک ضروری کام یاد آیا تو انہوں نے موبائل فون کو دوبارہ آن کرنے کی کوشش کی جو کام یاب ثابت ہوئی۔لیکن انہیں یہ محسوس کرکے بہت حیرت ہوئی کہ ان کا فون سیٹ معمول سے کہیں زیادہ گرم تھا،حالاں کہ اس واقعے سے قبل چارجنگ کے دوران وہ اتنا گرم نہیں ہوتا تھا۔ انہیں دوسرا جھٹکا اس وقت لگاجب انہوں نے یہ دیکھا کہ ان کے موبائل فون کی بیٹری نوّے فی صد تک چارجڈتھی۔
ان کے ذہن میں فوری طورپر یہ خیال آیا کہ اگر بیٹری کی چارجنگ ختم ہوجانے کی وجہ سے موبائل فون بند ہوگیا تھا تو نصف گھنٹے میں اس کی بیٹری نوّے فی صد تک کیسے چارج ہوگئی؟مگر ان کے دماغ نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔پھر اس سوال کو ذہن سے جھٹک کر وہ معمول کے کاموں کے لیےفون سیٹ استعمال کرنے لگے۔
انہیں تیسرا اور سب سے زوردار جھٹکا مذکورہ لِنک پر کِلک کرنے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد اس وقت لگا جب انہیں اس بینک سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں ان کا کاروباری اکاونٹ تھا۔ بینک کی جانب سے موصول ہونے والے پیغام میں انہیں مطلع کیا گیا تھاکہ ان کے اکاونٹ سے تین لاکھ روپے نکال لیے گئے ہیں۔
یہ پیغام پڑھتے ہی انہوں نے متعلقہ بینک کا رُخ کیا اور وہاں جاکر سارا ماجرا سنایا تو عملے نے انہیں مطلع کیا کہ ان کے ساتھ سائبر فراڈ ہوچکا ہے،انہوں نے مذکورہ لِنک پر کِلک کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی اور اِن کے فون کے کافی چارجڈ ہونے کے باوجودبند ہونے اور بہت زیادہ گرم ہونے کی وجہ جعل سازی کرنے والوں کی حرکتیں تھیں۔
فون بند ہونے کے عرصے میں جعل سازوں نے اس میں سے ان کے اکاونٹ کا پاس ورڈ وغیرہ چرایا اور اکاونٹ سے رقم منتقل کی ۔یعنی اس عرصے میں بہ ظاہر فون بند تھا،لیکن صرف احسان اللہ کے لیے۔ البتہ جعل ساز اسے استعمال کررہے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا، وہ ایک طویل کہانی ہے،جس کا اختصار یہ ہے کہ احسان اللہ کو ان کے اکاونٹ سے چرائی گئی رقم تاحال نہیں مل سکی ہے اور نہ ہی ان کے کسی ملازم نے اس روز کسی کو کوئی پارسل لاہور بھجاتھا۔
یہ رسّی ہم سب کے پیروں میں ہے
یہ اور اس طرح کے سیکڑوں واقعات ملک بھر میں روزانہ لوگوں کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں۔اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہوتا، بلکہ دنیا بھر میں یہ شکایات عام ہیں کیوں کہ یہ ڈیجیٹل دور ہے۔ یعنی یہ رسّی ہم سب کے پیروں میں ہے۔ ایسی ہی وارداتوں کو سیادی جرائم یا سائبر کرائم کا نام دیا گیا ہے۔
اِک خوف سارہتا ہے ہر گھڑی
ان حالات میں ہم میں سے بہت سے افراد ایسے ہیں جو کسی انجان نمبر سے آنے والی ٹیلی فون کال کا جواب دینا اس خدشے کے پیش نظر چھوڑ چکے ہیں کہ کہیں یہ دھوکا یا فراڈ نہ ہو۔ اور اب تو ہمیں کوئی ٹیکسٹ میسج آ جائے تو ہم خوف زدہ ہو جاتے ہیں، خصوصا ایسا میسج جو مبینہ طور پر ہمارے بینک کی جانب سے ہو یا کسی مبینہ ڈلیوری فرم کی جانب سے ہو۔
ہمیں یہی خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ یہ فراڈ ہی ہو گا۔ہمارے ہاں اگرچہ سائبر کرائم سمیت بہت سے اہم واقعات اور معاملات کے بارے میں مستند اعدادو شمار دست یاب نہیں ہوتے ،لیکن بیرونی دنیا ،بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں ہر چھوٹے بڑے معاملےکے بارے میں بہت حد تک مستند اعدادوشمار مل جاتے ہیں ۔ چناں چہ تین برس قبل انگلستان میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم اس سلسلے میں احتیاط برتنے میں حق بہ جانب ہیں۔
رپورٹ کے مندرجات بتاتے ہیں کہ اگست2020سے اگست2021کے عرصے میں فون کال اور ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے صرف انگلینڈ، ویلز اورشمالی آئرلینڈ میں فراڈ اور دھوکادہی کے واقعات میں اس سے قبل کے ایک سال کی نسبت تیراسی فی صد اضافہ ہواتھا۔واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار صارفین سے متعلق ایک گروپ کی جانب سے جاری کیے گئے تھے۔ اس گروپ نے برطانیہ میں فراڈ اور سائبر کرائم سے متعلق ڈیٹا کا تجزیہ کیا تھا۔
مذکورہ گروپ کے بہ قول ہر لحاظ سے یہ سب دھوکا دہی کے بڑے حملے تھے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ دھوکادہی میں اضافہ اس وجہ سے بھی ہوا کیوں کہ کورونا کے دوران لوگوں نے زیادہ تر خریداری آن لائن کرنا شروع کر دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کہ لوگوں کو جعلی پارسل ڈلیوری سروسز کے پیغامات ملنا شروع ہو گئے۔
ان وارداتوں میں دراصل فراڈ کرنے والے افراد کسی بھی شخص کو بہ ظاہر قانونی طور پر درست نمبر سے پیغام بھیجتے ہیں جس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک پیکج کی ڈلیوری کے لیے تھوڑی سی رقم کی ادائیگی کی ضرورت ہے۔ اور جب پیغام وصول کرنے والا شخص پیغام میں موجود لِنک پر کلک کرتا ہے تو دھوکا دہی سے منسلک لوگ اس کی بینک کی معلومات چوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اصطلاحی معنی اور وسعت
سیادی جرائم یا سائبر کرائم دراصل انٹرنیٹ کے ذریعے کی جانے والی وہ غیر قانونی سرگرمی ہے جس کے تحت مجرم کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا کسی آلے کے ذریعے کسی بھی شخص کی معلومات یا حساس نوعیت کے کاغذات چرا لے، ان میں ردّو بدل کردے،نظام ہیک کرلیےیا پھر کسی کو دھمکی آمیز پیغامات دے۔
ان جرائم کی اصطلاح میں کمپیوٹر، ہندسی آلات (digital devices) اور انٹرنیٹ کے دائرے میں شمار اور استعمال ہونے والے نیٹ ورکس کے ذریعے شروع کی جانے والی کوئی بھی غیر قانونی سرگرمی شامل ہو سکتی ہے۔ اس میں کسی فرد، حکومت یا کاروباری شعبے سے تعلق رکھنے والی معلومات کی دور دراز کی چوری بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اس میں آن لائن بینک اکاونٹ سےرقم چوری کرنے سے لے کر سیادی صارفین (cyber users) کو ہراساں کرنا اور ان کا پیچھا کرنا بھی شامل ہے۔
پاکستان کی صورت حال
حال ہی میں قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں سائبر کرائم کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، 2021 میں ایک لاکھ 15ہزار ،2022 میں ایک لاکھ 36 ہزار اور 2023 میں ایک لاکھ34ہزار 710 شکایات موصول ہوئیں۔ شرمیلا فاروقی کے سوال پر تحریری جواب میں وزارت داخلہ نے سائبر کرائم کے واقعات کی تعداد میں اضافے سے متعلق تین برسوں کی تفصیلات پیش کیں۔
تحریری جواب میں بتایاگیا کہ سال 2021 میں ایک لاکھ 15 ہزار 868 شکایات موصول ہوئیں۔ اسّی ہزار، آٹھ سو تین شکایات کی تصدیق ہوئی۔ پندرہ ہزار سات سو چھیاسٹھ تحقیقات کی گئیں۔ بارہ سوتیئس ایف آئی آرزدرج کی گئیں۔38کیسز میں سزائیں ہوئیں،88بری ہو گئے۔ 2022 میں ایک لاکھ 36 ہزار 24 شکایات موصول ہوئیں۔ تراسی ہزار پانچ سو باون کیسز کی تصدیق ہوئی ۔چودہ ہزار تین سو اسّی کیسز کی تحقیقات ہوئیں۔
اس سے قبل یہ خبر آئی تھی کہ سائبر سکیورٹی کو مزید مستحکم بنانے اور ممکنہ خطرات کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کے لیے نادرا، این ٹی ایل اور نیشنل سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم کے مابین معاہدے پر دست خط ہوگئے ہیں۔ ترجمان نادرا کے مطابق ہیڈکوارٹرز میں منعقدہ تقریب میں چیئرمین نادرا نے بھی شرکت کی تھی۔
ترجمان کے مطابق معاہدے کے تحت ممکنہ خطرات کے متعلق معلومات اور متعلقہ ڈیٹا کا باہمی تبادلہ کیا جائے گا۔ سائبر سکیورٹی سے متعلق خطرات اور واقعات سے متعلق حساس معلومات ایک دوسرے کو دی جائیں گی اور پاکستان کے ڈیجیٹل اثاثوں کو متاثر کرنے والے واقعات پر مشترکہ جوابی کارروائیاں کی جائیں گی۔
معاہدے کے تحت سائبر سکیورٹی سے متعلق واقعات کی مشترکہ تحقیقات کی جائیں گی۔ ترجمان نادرا کے مطابق معاہدے کے تحت ٹیکنالوجی اور حکمت عملی میں بہتری کے منصوبوں پر کام کیا جائے گا اور تربیتی سیشن اور شہریوں کی آگاہی میں اضافہ کےلیے خصوصی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے گا۔
تبدیل شدہ معاشرت کے قرینے اورقوانین
ترقی کی منازل طے کرتے انسان نے نئے انداز اپناتے ہوئے ٹیکنالوجی کی دنیا میں قدم رکھا اور ایک ڈیجیٹل دور کا آغاز ہوا۔ فاصلے مزید سمٹ گئے اور آواز کے ساتھ وڈیو کے زریعے رابطے نے بہت کچھ آسان کر دیا۔ سیکنڈوں میں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ جانے والے رابطوں نے میلوں دور بیٹھے اپنوں اور پراؤں کے حالات جاننے کے قابل بنا دیا۔ لیکن ہر سہولت اتنے سستے میں دست یاب ہونے لگے تو اس پر بہت سے برے اثرات بھی بآسانی وارد ہونے لگتے ہیں۔
کچھ شر پسند ذہنوں نے انٹرنیٹ جیسی سہولت کا منفی استعمال کرتے ہوئے اسے غیر یقینی بنا ڈالا، تصاویراور ذاتی معلومات کی چوری اور ان کے غلط استعمال سے لےکر کسی مقام پر کیے جانے والے حملے کی آن لائن وڈیوزنے انٹرنیٹ کے منفی استعمال پر ہزاروں تشویش ناک سوالات کو جنم دیا۔
بلاشبہ جدید ٹیکنالوجی نے انسانی معاشرت کا چہرہ یک سر تبدیل کردیا ہے۔ خاص طور پر، گزشتہ پچّیس،تیس برسوں میں اس نے ایسے حیرت انگیز کمالات دکھائے ہیں کہ اس سے پہلے عقلِ انسانی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ جو جادو کی کہانیاں تھیں، وہ جیتی جاگتی شکلوں میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ صدیوں کے فاصلے لمحوں میں سمٹ آئے ہیں۔
انگلیوں کی ایک جُنبش پر معلومات کا خزانہ اپنا دامن ہمارے لیے کھول دیتا ہے۔ دوراُفتادہ اجنبی سرزمینوں کے اجنبی واقعات پل بھر میں ہمارے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ آن لائن سورسز، انٹر نیٹ اور موبائل فون جیسے وسیلوں کے طفیل بلند وبالا پہاڑوں، لق و دق صحراؤں اور گہرے سمندروں کے راز ایک دوسرے سے ہم کلام ہو رہے ہیں۔
پرانی نسل محو حیرت ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہوگئی ہے اور اگلے برسوں میں کیا سے کیا ہوجائے گی۔ ذرایع ابلاغ کی وضع قطع میں ناقابل یقین انقلاب رُونما ہوچکا ہے۔ میڈیا اتنی جہتوں میں پھیل رہا ہے کہ ’’گلوبل ولیج‘‘ کی اصطلاح کا مفہوم سمجھنا مشکل نہیں رہا۔
ابنِ آدم اس انقلاب کی برکتوں سے فیض یاب بھی ہورہا ہے اور اپنی سرشت کے مطابق اسے منفی رنگ میں بھی استعمال کررہا ہے۔ اجتماعی معاشرت میں اجتماعی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے کچھ قرینے اور قوانین بنانے پڑتے ہیں۔ یہ چلن عام ہوچکا ہے، اس لیے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہر ریاست میں قانون سازی کا عمل قانون ساز ادارے انجام دیتے ہیں۔
قانون ساز اداروں کے ارکان (اور قانون پر عمل در آمد کرانے والے اہل کار بھی) آدم زاد ہوتے ہیں، اس لیے وہ بھی کوتاہیوں، غفلتوں اور غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، جو مفاد پیوستہ (Vested Interest) کا شاخسانہ بھی ہوسکتی ہیں۔ گویا غلطیوں کا ارتکاب دانستہ طور پر بھی ہوسکتا ہے اور نادانستہ طور پر بھی۔ البتہ دانستہ غلطی جرم کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔
سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نیا ادارہ
ایسی ہی ایک کوشش رواں برس مئی کے مہینے میں کی گئی اور _ حکومتِ پاکستان نے سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے 'نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے نام سے الگ ادارہ قائم کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔یہ ایجنسی وفاقی وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہوگی۔
ایف آئی اے سائبر ونگ کے پاس سائبر کرائم کی تمام انکوائریز، تحقیقات، اثاثہ جات، رائٹس اورسہولتیں اس ایجنسی کو منتقل ہوں گی۔اطلاعات کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے سربراہ کی مدتِ ملازمت دو سال ہو گی، جس میں مزید دو سال کی توسیع کی جا سکے گی۔ ایف آئی اے کے سائبر ونگ کے ملازمین ڈپوٹیشن پر نیشنل سائبر کرائم ایجنسی میں کام کریں گے۔
سرکاری نوٹی فکیشن کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے اختیارات ختم کر دیے گئے ہیں۔ یعنی اب سائبر کرائم کی تحقیقات ایف آئی اے کے بجائے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کرے گی۔
یاد رہے کہ سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نئی ایجنسی کا قیام ایسے موقع پر کیا گیا جب ملک کی اہم شخصیات سمیت لگ بھگ ستّائیس لاکھ پاکستانی شہریوں کا ڈیٹا لیک ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔
اس واقعے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے وزارتِ داخلہ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 2019سے2023کے دوران تقریبا ستّائیس لاکھ پاکستانی شہریوں کا نادراکا ڈیٹا لیک ہوا تھا اور یہ ڈیٹا ملتان، پشاور اور کراچی کے سینٹرز سے لیک کیا جا رہا تھا۔
سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نئی ایجنسی کا قیام پری ونشن آف الیکٹرانک کرائم (پیکا) ایکٹ 2016 کے کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اسی ایکٹ کے تحت ماضی میں سائبر کرائم کی تحقیقات کے اختیارات ایف آئی اے کو دیے گئے تھے۔ اس وقت بعض سیاسی جماعتوں اور مختلف تنظیموں نے پیکا ایکٹ کی منظوری کی شدید مخالفت کی تھی۔ اب اسی ایکٹ کے تحت سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی قائم کی گئی ہے۔
سرکاری نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے کہ نئی ایجنسی فوری طور پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے وسائل، انفرااسٹرکچر اور ملازمین کے ساتھ کام کرے گی۔ سرکاری ذرائع کہتے ہیں کہ نئی انویسٹی گیشن ایجنسی سائبر کرائم کے کیسز کو ڈیل کرنے کی مجاز ہوگی اور اس کے لیے اس کے علیحدہ تھانے اور فارینزک لیباریٹری ہو گی۔
وفاقی حکومت ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر ایسا افسر تعینات کرے گی جو کم سے کم 21 گریڈ کا افسر یا 63 برس سے کم عمر ہو۔نئی ایجنسی کے سربراہ کے لیے کم سے کم 15 برس کا کمپیوٹر سائنس، ڈیجیٹل فارینزک، سائبر ٹیکنالوجی، قانون، پبلک ایڈمنسٹریشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تجربے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل کو پولیس آرڈر2002 کے تحت صوبے کے آئی جی کو حاصل اختیارات کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے۔ تفتیشی افسر اور اس کے ماتحت دیگر افسران پولیس آرڈر 2002 کے تحت ادارے میں خدمات انجام دیں گے۔
اس ضمن میں وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے دو مئی کو مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا تھاکہ سائبر کرائم سے نمٹنے کے لیے ایف آئی اے کے پاس مطلوبہ مہارت نہیں اور ڈیجیٹل رائٹس کے لیے ایف آئی اے فورم نہیں ہے۔
تحفّظات اور خدشات
جب سے یہ نیا ادارہ قائم کیا گیاہے بہت سے لوگ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ حکومت کو سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے نئے ادارے کی ضرورت کیوں پڑی؟اس ضمن میں آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کی وزیرِ مملکت ، شزہ فاطمہ خواجہ کا کہنا ہے کہ یہ ایجنسی وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرے گی۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے درج کی گئی شکایات کے ازالے کے لیے ایک اتھارٹی کی ضرورت تھی اور خصوصاً ان خواتین اور بچوں کے لیے جنہیں آن لائن نقصان پہنچ سکتا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایف آئی اے کی موجودگی میں ایک نئے ادارے کو قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی صلاحیت سائبر کرائمز کو ہینڈل کرنے کے حوالے سے محدود ہے، لہٰذا ایسی خاص اتھارٹی کی ضرورت تھی جس کے اہل کار ان جرائم کی روک تھام میں مہارت رکھتے ہوں۔
تاہم سائبر کرائم کے مقدمات پر گہری نظر رکھنے والے بعض وکلا اور ما ہرین قانون کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس نئی ایجنسی یا اتھارٹی بنانے کے اختیارات توہیں، لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ اس ایجنسی کے پاس سائبر کرائم سے نمٹنے کی مناسب اہلیت ہو گی یا نہیں اور کیا اس نئے ایجسنی کے پاس تحقیقات کے لیے وہ افرادی قوت ہوگی جو سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے ضروری ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ایسا نہیں ہوگا کہ اس سے قبل ایف آئی اے کے پاس بھی افرادی قوت اور ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ ان کے پاس ایسے جرائم کی تحقیقات کرنے کے لیے ضروری تربیت بھی نہیں تھی۔ یہاں شفافیت تو ہونی چاہیے کہ کس طرح سے اور کس بنیاد پر یہ ایجنسی بنائی گئی ہے۔
بعض حلقے اس ضمن میں اس لیےے بھی تحفّظات اور خدشات کا اظہار کررہے ہیں کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں سائبر کرائم قوانین کے تحت سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافیوں کے خلاف بھی مبینہ طور پر مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ ایسے میں یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکومت سوشل میڈیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں یہ خدشہ ہے کہ حکومت سوشل میڈیا پر نگرانی بڑھانا چاہتی ہے اوراطلاعات بتارہی ہیں کہ اب اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت پہلے سے زیادہ متحرک طریقےسے اور منہگی ٹیکنالوجی استعمال کرکے سوشل میڈیا پر پولیسنگ بڑھانا چاہتی ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں انٹرنیٹ کی نگرانی کرنے والے ڈیجیٹل رائٹس کے تحفظ کے لیے سرگرم افرادسمجھتے ہیں کہ اس ایجنسی کے قیام کے ذریعے حکومت سوشل میڈیا پر اپنا کنٹرول بڑھانا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اچانک سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے کوئی ادارہ بنانا حیرت انگیز بات ہے۔ان کے خیال میں یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اس کے قیام سے قبل اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کی گئی ہوگی۔
یہ نئی ایجنسی بنانے کی کوئی تُک نہیں بنتی کیوں کہ اس میں بھی ایف آئی اے کے لوگ ہی کام کریں گے اورایسا لگتا ہے جیسے حکومت سوشل میڈیا پر کنٹرول بڑھانے کے لیے نئے قوانین بنا رہی ہے۔ مذکورہ افراد دعویٰ کرتے ہیں کہ ان اقدامات کا مقصد صحافیوں، انسانی حقوق کےلیے کام کرنے والے کارکنان اور ریاستی پالیسیز کے ناقدین کو خاموش کروانا لگتا ہے۔
تصویر کا ایک اور رخ
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے نے رواں برس مارچ کے مہینے میں نے خبردار کیاتھا کہ والدین بچوں کے اسکرین پر گزارے جانے والے وقت کو محدود اور کنٹرول کریں ورنہ بچوں کو آن لائن ہراسانی جیسے خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ان خطرات کا اظہار 'نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ (این سی آر سی) نےجاری کی جانے والی اپنی رپورٹ میں کیا تھا۔ کمیشن نے خبردار کیاتھا کہ بچوں کو آن لائن ہراسانی سے بچانے کے لیے حکومتی اداروں، عدلیہ اور سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی آٹھویں بڑی آبادی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ والدین اور گارڈینز بچوں کے اسکرین ٹائم پر نظر رکھیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق آن لائن ہراسانی کے واقعات میں 11 سے 15 سال تک کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
اس میں بچے نہیں بلکہ والدین ذمے دار ہیں جنہوں نے بچوں کو آن لائن رہنے کے لیے موبائل فونز اور دیگر ڈیجیٹل آلات کی اجازت دے رکھی ہے۔ کمیشن نے یہ رپورٹ 'پاکستان میں بچوں کے آن لائن تحفظ کے حالات کا تجزیہ کے نام سے جاری کی ہے۔ اسی طرح ملک میں خواتین کو بھی آن لائن ہراساں کرنے کی شکایات میں بھی کافی اضافہ ہوچکا ہے۔