ملکی معیشت پر CEO کلب پاکستان نے اسلام آباد میں گزشتہ دنوں ایک اہم کانفرنس منعقد کی جسکے آرگنائزر CEO کلب کے بانی صدر اعجاز ناصر تھے۔ اس تقریب میں بحیثیت اسپیکر مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔
کانفرنس کا موضوع ’’معاشی ترقی کیلئے اعتماد کی فضا‘‘ تھا۔ کانفرنس سے وفاقی وزراء احسن اقبال، مصدق ملک، عطا تارڑ، SIFC کے سیکرٹری ڈاکٹر جہانزیب خان، بینکنگ محتسب سراج الدین عزیز، فیڈریشن کے صدر عاطف اکرام، پرتگال، انڈونیشیا، آذربائیجان اور اُردن کے سفیر، اخوت فائونڈیشن کے ڈاکٹر امجد ثاقب، اسٹیٹ لائف کے CEO شعیب جاوید حسین اور زاہد لطیف خان تھے۔ میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ قومی اسمبلی، فنانس، کامرس اور اقتصادی امور کی قائمہ کمیٹیوں کے رکن کی حیثیت سے مجھے وزیر خزانہ، وزیر تجارت، چیئرمین FBR، گورنر اسٹیٹ بینک، صدر نیشنل بینک، وفاقی سیکریٹریز، اہم اداروں کے سربراہان اور IMF کی اِن کیمرہ بریفنگ سے پتہ چلا ہے کہ ’’نہ سب کچھ ٹھیک ہے اور نہ سب غلط۔‘‘
ملکی معیشت نے کچھ سیکٹرز میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے تو کچھ شعبوں میں ہمیں سنگین معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا چیلنج صارفین اور صنعت کو ناقابل برداشت قیمتوں پر بجلی کی سپلائی ہے جس سے صنعتوں کی مقابلاتی سکت کم ہوگئی ہے، ایکسپورٹ آرڈرز میں کمی آئی ہے، بیشمار صنعتیں بند ہوگئی ہیں جبکہ باقی کم پیداواری گنجائش پر کام کررہی ہیں جس سے ملک میں تیزی سے بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے، معیشت سکڑ رہی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ صنعتی صارفین کا ٹیرف 15 سینٹ فی یونٹ سے کم کرکے 9سینٹ فی یونٹ تک لایا جائے تاکہ صنعتیں مقابلاتی ہوسکیں۔ یاد رہے کہ ملک میں جاری اقتصادی بحران نے بجلی کی کھپت کو کم کردیا ہے۔ آئی پی پیز معاہدوں کی وجہ سے حکومت کو بجلی خریدے بغیر آئی پی پیز کو کیپسٹی چارجز کی مد میں اربوں روپے دینا پڑرہے ہیں اور سرکولر ڈیٹ 6600ارب روپے کی ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکا ہے جس پر آئی ایم ایف کو شدید تشویش ہے اور ان معاہدوں پر نظرثانی پر زور دیا ہے۔ ان میں چین کیساتھ کئے گئے آئی پی پیز معاہدے بھی شامل ہیں جو ایک حساس مسئلہ ہے۔ آئی پی پیز معاہدوں میں ترامیم کی تجاویز میں گارنٹی منافع میں کمی، ڈالر کی شرح کی حد بندی اور کیپسٹی چارجز کی مد میں غیر استعمال شدہ بجلی کی ادائیگی نہ کرنے سمیت 24اہم شرائط شامل ہیں جو پیشہ ورانہ انداز میں کئے جارہے ہیں۔ آئی پی پیز معاہدوں میں تبدیلیاں باہمی رضا مندی سے ہونگی۔ یہ وہی شرائط ہیں جنکا میں اپنے گزشتہ کالموں میں متعدد بار ذکر کرچکا ہوں جس میں Take & Pay ماڈل بھی شامل ہے جس میں مقابلاتی نیلامی کے ذریعے صرف خریدی جانیوالی بجلی کی ادائیگی کی جائیگی۔ معاملے کی سنگین صورتحال اور معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے مجھے اسکا ادراک کافی عرصے پہلے ہوگیا تھا جس کے بعد میں نے آئی پی پیز سے مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا۔
میں نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے سابق سینئر نائب صدر کی حیثیت سے FPCCI کے کراچی اور اسلام آباد آفس میں گوہر اعجاز، ایس ایم تنویر اور فیڈریشن کے صدر کے ساتھ پریس کانفرنسیں کیں اور 40 چیمبرز کے صدور کے ساتھ صدر پاکستان آصف زرداری سے ملاقات کی۔ آئی پی پیز پر میں نے متعدد کالمز تواتر کیساتھ لکھے اور خصوصاً قومی اسمبلی میں 5 ستمبر کو 93 آئی پی پیز کی 22000میگاواٹ سے زائد معاہدوں کی فہرست پیش کی اور اِن معاہدوں کو ملکی معیشت اور سلامتی کیلئے رسک قرار دیا اور وزیر توانائی اویس لغاری سے آئی پی پیز سے فوری مذاکرات کرنے کی درخواست کی۔ یہی معلومات میں نے وزیر توانائی کو قومی اسمبلی میں سوال جواب کے سیشن میں فراہم کیں اور کہا کہ ہم 40 آئی پی پیز معاہدوں پر ماتم کررہے تھے لیکن آج آپ کی وزارت نے مجھے 93 آئی پی پیز کی فہرست فراہم کی ہے جس میں ہزاروں میگاواٹ کے بڑے منصوبے وفاقی حکومت، حکومت پنجاب اور امپورٹڈ کوئلے سے چلنے والے ہیں جس کا بوجھ بھی صارفین پر ڈالا جارہا ہے۔
میں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں اضافی بجلی کی ضرورت نہیں، ہم 43000 میگاواٹ بجلی پیدا کررہے ہیں لیکن بمشکل 22000 میگاواٹ استعمال کررہے ہیں لہٰذا ان بڑے منصوبوں کا بوجھ عوام پر نہ ڈالا جائے۔ عوام کے دبائو پر وزیراعظم پاکستان نے آئی پی پیز سے مذاکرات کیلئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جس کی سربراہی وزیر توانائی اویس لغاری اور شریک چیئرمین سابق نگراں وزیر توانائی محمد علی کررہے ہیں جن سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ نگراں حکومت کے دور میں کچھ آئی پی پیز معاہدوں پر کامیاب مذاکرات بھی ہوئے تھے لیکن باقی آئی پی پیز سے مذاکرات کیوں نہیں کئے گئے؟ جیسے چبھتے سوالات میں نے ایوان میں اٹھائے اور آج مجھے یہ بتاتے ہوئے نہایت خوشی ہے کہ حکومت اور IPPs میں مہنگی بجلی پر بات چیت شروع ہوچکی ہے کیونکہ اسٹیک ہولڈرز یہ جانتے ہیں کہ بجلی کی قیمتوں کا موجودہ نظام ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکا ہے اور کوئی سمجھوتہ کئے بغیر حکومت اور آئی پی پیز کو صارفین کو بجلی کے نرخوں میں جلد رعایت دینا ہوگی۔ بجلی کے بلوں پر قتل اور خود کشیاں نہایت تکلیف دہ امر ہے اور فریقین یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتی۔