وزیراعظم شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کے اعزاز میں عشائیہ دیا، جس میں ارکان پارلیمنٹ کو آئینی ترامیم پر اعتماد میں لیا گیا۔
اتحادی جماعتوں نے بھی وزیراعظم کو آئینی ترامیم پر حمایت کی یقین دہانی کروائی۔
وزیراعظم نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان کو کل اسلام آباد میں موجود رہنے کی ہدایت کی۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت قائم کرنے اور آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔
آئینی مقدمات کیلئے علیحدہ آئینی عدالت کے قیام کا خاکہ پیش
دوسری جانب وفاقی حکومت نے آئینی مقدمات کیلئے علیحدہ آئینی عدالت کے قیام کا خاکہ پیش کردیا ہے۔
سینیٹ میں نائب وزیراعظم اور قائد ایوان سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا، اگر ہم آج اٹھارہ سال بعد یہ کام کرسکتے ہیں تو کیوں نہ کریں؟
اسحاق ڈار نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اس وقت 25 فیصد آئینی کیسز ہیں، اگر مقدمات کا بوجھ منتقل کیا جا سکتا ہےتو یہ اچھا ہے، اگر نمبر پورے ہوں گے تو کریں گے، نہیں ہوں گے تو نہیں کریں گے، قومی اسمبلی میں بنائی گئی خصوصی کمیٹی میں سینیٹ ارکان بھی شامل کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر حکومت کی حکمت عملی ہوتی ہے، 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے، میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کا خاکہ موجود ہے، اٹھارہ سال ایک چیز التواء میں رہی، اٹھارہ سال بعد ترمیم کر سکتے ہیں تو کیوں نہ کریں، بانی پی ٹی آئی نے بھی بعد میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے، اگر اس میں اچھی چیز ہے، اگر آپ لوڈ شفٹ کر سکتے ہیں تو وہ اچھا ہے، اب اس کو ہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ آئینی کورٹ کا تصور نیا نہیں، کوئی چھپانے والی بات نہیں، کہا جا رہا ہے ججوں کی دو سال مدت نہ بڑھاؤ، میں نے کہا سول بیورو کریسی کی مدت بڑھا نہیں سکتے تو ججز کی بھی نہ بڑھاؤ، 17 مہینے ملک میں الیکشن کمیشن غیر فعال رہا تھا، کیا اسے درست نہیں کرنا چاہیے، کیا باقی آئینی عہدوں پر نہیں کہ دوسرے کے آنے تک وہ عہدہ خالی رہے۔