وفاقی حکومت نے آئینی مقدمات کیلئے علیحدہ آئینی عدالت کے قیام کا خاکہ پیش کردیا ہے۔
سینیٹ میں نائب وزیراعظم اور قائد ایوان سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا، اگر ہم آج اٹھارہ سال بعد یہ کام کرسکتے ہیں تو کیوں نہ کریں؟
اسحاق ڈار نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اس وقت 25 فیصد آئینی کیسز ہیں، اگر مقدمات کا بوجھ منتقل کیا جا سکتا ہےتو یہ اچھا ہے، اگر نمبر پورے ہوں گے تو کریں گے، نہیں ہوں گے تو نہیں کریں گے، قومی اسمبلی میں بنائی گئی خصوصی کمیٹی میں سینیٹ ارکان بھی شامل کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر حکومت کی حکمت عملی ہوتی ہے، 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے، میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کا خاکہ موجود ہے، اٹھارہ سال ایک چیز التواء میں رہی، اٹھارہ سال بعد ترمیم کر سکتے ہیں تو کیوں نہ کریں، بانی پی ٹی آئی نے بھی بعد میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے، اگر اس میں اچھی چیز ہے، اگر آپ لوڈ شفٹ کر سکتے ہیں تو وہ اچھا ہے، اب اس کو ہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ آئینی کورٹ کا تصور نیا نہیں، کوئی چھپانے والی بات نہیں، کہا جا رہا ہے ججوں کی دو سال مدت نہ بڑھاؤ، میں نے کہا سول بیورو کریسی کی مدت بڑھا نہیں سکتے تو ججز کی بھی نہ بڑھاؤ، 17 مہینے ملک میں الیکشن کمیشن غیر فعال رہا تھا، کیا اسے درست نہیں کرنا چاہیے، کیا باقی آئینی عہدوں پر نہیں کہ دوسرے کے آنے تک وہ عہدہ خالی رہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی اپنی مرضی سے قانون لاتے رہے ہیں، ان کی حکومت نے آدھے گھنٹے میں 22 قانون پاس کیے، مثبت انداز سے چیزوں کو دیکھیں، کہا گیا کہ چھپ کر کر رہے ہیں، اگر نمبر ہوں گے تو کریں گے، نہیں ہوں گےتو نہیں کریں گے، ایک فیصلہ آیا کہ آپ پارٹی لائن کے خلاف فیصلہ دیں گے تو اس کا ووٹ بھی کاؤنٹ نہیں ہوگا اور نا اہل بھی ہوں گے، آئین میں ہے کہ غلطی کریں گے تو سزا ہو، عوام کو انصاف ملتا نہیں، آئیں مل کر چیزوں کو درست کرتے ہیں، جب بل آئے گا تو کوئی آزاد شخص دیکھے گا کہ بہتری ہو رہی ہے۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ ہم نے ایک بھی اپوزیشن کے رکن پر نیب کا مقدمہ نہیں کیا، اس بل میں اچھی چیزیں دے سکتے ہیں تو دیں، اس میں کوئی سرپرائز نہیں ہوگا، جو عوام، قوم اور ملک کے مفاد میں ہو گا وہ کریں گے، کوئی ایسی چیز نہیں ہوگی جو عوام، قومی، ملکی مفاد میں نہ ہو۔
نائب وزیر اعظم نے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ کوئی پارٹی کا بندہ دوسری طرف ووٹ دے تو کیا برا ہے، ہم نے یہ اٹھاوریں ترمیم میں فیصلہ کیا کہ آئینی ترمیم کو بھی63 اے میں ڈالیں، میں نے کہا کہ جو پارٹی لائن کراس کرے تب یہ شق لگے گی، اگر آپ لائن کراس کریں گے تو یہ لاگو ہوگا۔