• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں بہتری تعلیم کے نظام کو درست کرنے سے آتی ہے۔ دنیا کے ممالک کو دیکھ لیںتعلیم میں انقلابی اقدامات کے سبب انہوں نے ترقی کی۔ ہمارے معاشرےاور حکومت کا المیہ یہ ہے کہ ہم تعلیم کے لیے بہت کم بجٹ رکھتے ہیں۔ کئی عشروںسے تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت ختم نہیں ہوئی جس سے تعلیمی ادارے مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ وائس چانسلرز کا تقرر بھی سیاسی مداخلت، سیاسی سفارشات پر ہوتا ہے جس سے بگاڑ اور غلط انتخاب جنم لیتا ہے طلبا کی تعلیم اور نصاب پر پالیسیاں بھی ہمارے قومی تقاضے پورے نہیں کرتیں۔ جسکی وجہ سے ہم دنیا کے تعلیمی نظام سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔چند دن قبل حکومت نے اگلے سال سے نصاب میں تبدیلیوں کی خوش خبری دی ہے ۔ ہماری ڈگریاں بین الاقوامی یونیورسٹیوں کا مقابلہ نہیں کر پاتیں ۔ اس وقت جومسئلہ جو زیر بحث ہے وہ یہ کہ پاکستان کی یونیورسٹوں اور اب کالجوں میں بھی بی ایس اور دیگر پروگراموں کے داخلہ کیلئے فرسٹ ائیر کے زرلٹ کی بنیاد پر داخلے سیکنڈ ائیر کا امتحان ختم ہونے کے فوراً بعد شروع کر دئیے جاتے ہیں بعض یونیورسٹوں میں میٹرک ' فرسٹ ائیر اور 100نمبر کا امتحان لیکر کر میرٹ بنا کر بی ایس اور دیگر گریجویٹ پروگراموں میں داخلہ دے دیا جاتا ہے سکینڈ ائیر کا رزلٹ آنے سے پہلے یونیورسٹوں میں داخلے مکمل ہو چکے ہوتے ہیں جوطلبا کیلئے نقصان دہ ہے ۔بی ایس اور گریجویٹ پروگرامز میں داخلہ کی بنیاد انٹرمیڈیٹ ہے بعض طلبا کے فرسٹ ائیرمیں کم نمبر آتے ہیں اور سکینڈ ائیر میں زیادہ آتے ہیں بعض کے فرسٹ ائیر میں زیادہ آتے ہیں اور سکینڈ ائیر میں کم آتے ہیں،ایسے طلبا کی حق تلفی ہوتی ہے اور زیادہ نمبر ہونے کے باوجود وہ مختلف پروگرامز میں داخلہ لینے سے محروم رہ جاتے ہیں لہٰذا حکومت کو اس داخلہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور جو گریجویٹ داخلہ کی بنیاد مطلوبہ تعلیمی قابلیت انٹر میڈیٹ ہے اس کے رزلٹ کے بعد یونیورسٹوں میں داخلے شروع کرنے چاہئیں۔ ایچ ای سی کو شائد اس بات کا احساس نہیں کہ ان کی اس پالیسی کی وجہ سے بہت سے قابل طلبا کا مستقبل دائو پر لگ جاتا ہے پھر یہ طلبا بھاری بھرکم فیسوں کی عدم ادائیگی کے سبب یونیورسٹوں میں داخلوں سے محروم ہو جاتے ہیں جن طلبا کے نمبر انٹرمیڈیٹ میں کم ہو تے ہیں پرائیویٹ یونیورسٹیاں ان سے لاکھوں روپے گریجویٹ پروگرامز کی فیس لیتی ہیں ۔ تعلیم کو اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ اب متوسط طبقہ کے خاندانوں کیلئے اپنے بچوں کی تعلیم جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا

ہے۔ ایک طرف حکومت تعلیم سستی کرنے کا راگ الاپ رہی ہے تو دوسری طرف پرائیویٹ یونیورسٹوں کی فیس اتنی ہے کہ بہت مشکلات طلبا اور والدین کے سامنے ہیں ۔ میڈیکل کی تعلیم کا بھی یہ ہی حال ہے لاکھوں روپے فیسیں ہیں، والدین جائیدادیں فروخت کر کے اپنے بچوں کو میڈیکل کی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ ایم ڈی کیٹ کے داخلہ کی فیس بھی ہر سال بڑھا دی جاتی ہے ۔ غریب خاندان اب روٹی پوری کریں یا اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں ۔ انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد بہت کم کالجز ہیں جہاں مارکیٹنگ گریجویٹ پروگرامز متعارف ہیں یونیورسٹوں کی فیسوں پر بھی حکومت کو چیک اینڈ بیلنس رکھنا چاہیے تاکہ تعلیم عام ہو اور پروفیشنل تعلیم کو فروغ ملے میڈیکل اور انجینئرنگ کے داخلے ٹیسٹوں کی بنیاد پر اب کیے جاتے ہیں ۔دو عشرے قبل صرف انٹر میڈیٹ کے رزلٹ پر طلبا کو داخلہ ملتا تھا۔ ٹیسٹوں کو شامل کر کے ان کے نمبر داخلہ پالیسی میں شامل کرنا طلبا کی انٹر میڈیٹ کی تعلیمی قابلیت پر شبے کا عنصر پیدا کرتا ہے۔ٹیسٹ میں بہت سے انٹر میں محنت کر کے اچھے نمبر لینے والے فیل ہوکرداخلہ سے محروم رہ جاتے ہیں لہٰذا میڈیکل اور انجینئرنگ کے داخلہ کی مطلوبہ قابلیت صرف انٹر ہی ہونی چاہیے ٹیسٹ طلبا کی حق تلفی ہے اور ریونیو اکٹھا کرنے کے علاوہ اورکچھ نہیں۔طلبا کو دہرے امتحان میں ڈال کر داخلہ دینا نا انصافی ہے۔ میڈیکل کونسل اور انجینئرنگ کونسل کے داخلہ کے سلسلے میں کئی بار حیرت انگیز انکشافات سے بھی دو چار ہو چکی ہے لہٰذا اس پر حکومت پاکستان کو نظر ثانی کرنی چاہیے بلکہ دیگر حکومتی تعلیمی پالیسیوں میں بے شمار سقم موجود ہیں خصوصی طور پر یونیورسٹوں کی پالیسیوں میں بے شمار نقائص ہیں جن کو دور کرنے سے ہمارا تعلیمی نظام بہتر ہو سکتا ہے ۔ ہماری تعلیم بھی بین الاقومی یونیورسٹیوں کی تعلیم کا مقابلہ نہیں کر پاتی ۔ یہاں یونیورسٹوں میں سیاست عروج پر ہے اور گروپ بندیاں اور لابی سسٹم ہیں جن کے سبب تعلیمی اداروں کا ماحول متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت تعلیمی نصاب میں اصلاحات اور نصاب کو جدید تقاضوں اور ضروریات کے مطابق کرنے میں بھی دلچسپی نہیں لے رہی ہے پہلی جماعت سے لیکر گریجویٹ پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی لیول تک نصاب پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ تعلیم کے فروغ کیلئے ہمیں اپنی ایسی غلط پالیسیاں تبدیل کرنی چاہئیں جن سے طلبا کا نقصان ہوتا ہے۔ تعلیم سب کیلئے اور آسان تعلیم کے سلوگن پر عملدرآمد ہونا چاہیے جو پرائیویٹ تعلیمی ادارےلوٹ مچا رہے ہیں اور تعلیم کے فروغ میں رکاوٹ ہیں حکومت کو تعلیم عام کرنے کیلئے ایسی پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں فیسیں متعین کرنی چاہئیں تاکہ طلبا کیلئے داخلے آسان ہو سکیں۔ ملک تعلیمی لحاظ سے ترقی کرے گا تو ہم دیگر بحرانوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ تعلیم میں اس وقت ملک کو انقلابی اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔

تازہ ترین