گزرنے والا ہفتہ مستقبل میں بحرانوں کی شدت میں اضافہ کے اشارے چھوڑ گیا جن کا واحد ذمہ دار تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی منفی سیاست اور عوام و خواص پر مرتب ہونے والے اثرات کو قرار دیا جا رہا ہے۔8ستمبر کو اسلام آباد میں جلسہ عام کے دوران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا اعلان بغاوت، پنجاب اور وفاقی دارالحکومت پر یلغار کی دھمکی اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کیا تو بانی پی-ٹی-آئی عمران خان نے وقت ضائع کئے بغیر اعلان بغاوت کی حمایت کرتے ہوئے پیغام دیا کہ’’ہم سب گنڈاپور کے ساتھ ہیں‘‘۔جلسہ سے خطاب کے بعد’’بہادر وزیراعلیٰ‘‘ اچانک موبائل فون سمیت رابطوں کے تمام ذرائع منقطع کرکےمنظر سے غائب ہوگئے اور 8گھنٹوں تک غائب رہنے کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور پہنچ گئے۔فرار کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ وزیراعلیٰ گنڈاپور اپنے قائد کو خوش کرنے کے لئے فرط جذبات میں اپنے کپڑوں سے نکل گئے اور ریاست کے خلاف بغاوت کے اعلان سے بھی گریز نہیں کیا لیکن جب انہیں حالات کی نزاکت کا احساس ہوا تو موقع سے فرار کو ترجیح دی۔ وزیراعلیٰ کی پراسرار گمشدگی کے دوران سیاسی حلقوں میں یہ تاثر بھی قائم ہوا کہ گنڈاپور ان کے خلاف ممکنہ خطرے اور بغاوت کے الزام میں معذولی اور گرفتاری سے بچنے کے لئے عسکری قیادت سے ملاقات اور معافی تلافی کے لئے ان کے سامنے پیش ہو گئے ہیں بلکہ کسی تصدیق کے بغیر یہ مؤقف اختیار کیا کہ عسکری قیادت نے وزیراعلیٰ کوچائے پر بلایا ہے لیکن یہ بیانیہ بھی پٹ گیا۔ اگرچہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ علی امین گنڈاپور کے تانے بانے بانی پی-ٹی۔آئی کے حکم پر عسکری قیادت کے ساتھ رابطے قائم تھے اور انہی کے ذریعے گاہے بگاہے ان سے بات چیت ہوتی تھی یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملنے کا تاثر اجاگر ہو رہا ہے اور یہ تاثرسامنے آنے والے شواہد اور وزیراعلیٰ کی مشکوک اور پراسرار حرکات کی بنیاد پر قائم ہوا۔ ادھر تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے حسب عادت موقع کو غنیمت جانتے ہوئے حکومت پر الزام عائد کردیاکہ گنڈاپور کو ایجنسیوں نے اٹھا لیا ہے لیکن انہیں اس وقت خفت اٹھانا پڑی جب گنڈاپور وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور پہنچ گئے۔انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان کھلی جنگ وقت کا سنگین ترین بحران ہو سکتا ہے جس کا آغاز ہو چکا ہے کیونکہ ماضی کی طرح عدلیہ نے انتظامی اختیارات کے ساتھ ساتھ مقننہ کے معاملات بھی اپنے ہاتھ میں لینے کا اشارہ دے دیا ہے اور رفتہ رفتہ حکومت کے لئے انصاف حاصل کرنے کے تمام دروازے بند ہو رہے ہیں۔عمران خان کا لا ابالی اور جذباتی رویہ نے جہاں اس ملک کو سیاسی، معاشی، معاشرتی اور سلامتی کے بحرانوں کے بھنور میں پھنسا دیا ہے وہاں نظام عدل کے اداروں کی جانب سے بعض متنازع فیصلوں کی وجہ سے قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لاغر اور کمزور ہو کر رہ گئے ہیں جس کے نتیجے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں قانون نافذ کرنے میں دشواری محسوس کر رہی ہیں۔ریاست پاکستان، بانی پی-ٹی-آئی عمران خان اور ان کے اشاروں پر چلنے والے سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کی جانب سے پیدا کئے جانے والے سیاسی اور آئینی بحرانوں سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے لیکن اپنے مقررہ آئینی اختیارات سے تجاوز کرنے والے اداروں کا کردار بڑی رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔تحریک انصاف کی جانب سے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نفرت انگیز مہم پوری قوت کے ساتھ جاری ہے جس کی بظاہر وجہ بیان نہیں کی جا سکتی سوائے اس کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو صرف عمران خان کے حکم پر مقامی اور عالمی سطح پر زہریلی پروپیگنڈا مہم چلائی جارہی ہے۔یہ وہی قاضی فائز عیسیٰ ہیں جنہیں عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں انہیں نااہل قرار دلانے کے لئے وقت کے صدر مملکت عارف علوی کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرایا اور صرف یہیں تک نہیں بلکہ چیف جسٹس اور ان کی اہلیہ کو مختلف چھوٹے مقدمات میں الجھا کر دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیا گیالیکن قدرت کے اپنے قوانین ہوتے ہیں جس کے تحت پوری کائنات کا نظام چلتا ہے اور پھر وہ وقت آیا کہ انہیں باعزت طور پر ریفرنس سے کلیئر کر دیا گیا اور وہ اپنے منصب پر بحال کردیئے گئے اور پھر قدرت نے وہ وقت بھی دکھایاوہ چیف جسٹس آف پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئے لیکن عمران خان اب بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جب وہ ان کی توہین و تذلیل کر سکیں۔لیکن توہین کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے جو پارلیمنٹ کے تمام ایوانوں میں سپریم کورٹ میں آئینی اصلاحات کو روکنا ہے، اس مقصد کے حصول کے لئے پی-ٹی-آئی کا ہر رکن قانون سازی میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششوں میں ہے اور صرف اپنے مذموم مقاصد کے لئے پارلیمنٹ کے ایوانوں کی مچھلی منڈی بنا کر بے توقیر کرنے کی مہم زوروں پر ہے-