خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا معاملہ تحریک انصاف کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرائے جانے سمیت متعدد انتخابی قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں کی وجہ سے الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدالتوں میں مسلسل زیر سماعت ہے لیکن اب تک کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا ہے۔اس ضمن میں تازہ ترین پیش رفت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ کےرجسٹرار سے پوچھے گئے 9سوالات ہیںجو بارہ جولائی کو عدالت کے آٹھ ججوں کی جانب سے دیے جانے والے مختصر اکثریتی فیصلے کے حوالے سے 14ستمبر کو جاری کیے گئے حکم نامے کے بارے میں ہیں۔اس معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کے باعث مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن عدالت کے فل بنچ نے متفقہ طور پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو آئین اور قانون کے مطابق قرار دیا۔ اسکے بعد متاثرہ فریق نے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ دونوں کے فیصلوں کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ۔ اس اپیل کی سماعت13 رکنی فل بنچ نے کی اور آٹھ ججوں نے بارہ جولائی کو اپنے مختصر اکثریتی فیصلے میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ دونوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیا حالانکہ تحریک انصاف نے یہ مطالبہ کیا ہی نہیں تھا ، اس کا مطالبہ یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دیے جانے کا تھا۔بہرکیف اس مختصر اکثریتی فیصلے کے نفاذ میں الیکشن کمیشن کو آئینی و قانونی دشواریاں پیش آئیں جس پر اس نے سپریم کورٹ سے تفصیلی فیصلے کے اجراء کی درخواست کی۔ تاہم اس پر آٹھ ججوں کی جانب سے ایک وضاحتی حکم سامنے آیا جس میں الیکشن کمیشن کو بارہ جولائی کے فیصلے پر من وعن عمل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن کمیشن اس کے بعد بھی عدالتی حکم پر عمل کرنے سے قاصر رہا کیونکہ اس کے مطابق اس میں قانونی دشواریاں حائل ہیں اور تفصیلی فیصلے میں ان مسائل کا حل پیش کیا جاسکتا ہے۔تاہم سپریم کورٹ کے متعلقہ جج صاحبان نے تفصیلی فیصلے کے بجائے ماہ رواں کی 14 تاریخ کو ایک بار پھر وضاحتی حکم جاری کردیا جس میں کمیشن پر عدالتی فیصلے پر دانستہ عمل نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز اسی وضاحتی حکم نامے کے حوالے سے رجسٹرار سپریم کورٹ سے 9سوالوں کا جواب مانگا ہے۔یہ سوالات بالترتیب یوں ہیں: الیکشن کمیشن اورپاکستان تحریک انصاف نے عدالت کے 12جولائی کے مختصر فیصلے سے متعلق ابہام کی درستگی کیلئے وضاحت کی درخواستیں کب دائر کی تھیں؟ پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کی یہ متفرق درخواستیں سپریم کورٹ پریکٹس پروسیجر ایکٹ 2023ءکے تحت قائم تین رکنی کمیٹی کو غور کیلئے کیوں نہیں بھیجی گئیں؟ متفرق درخواستیں کاز لسٹ پر شائع کیے بغیر ہی سماعت کیلئے کیسے مقرر ہوگئیں؟ کیا رجسٹرار آفس نے متعلقہ فریقین مقدمہ اور اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے نوٹس جاری کیے تھے؟ کس کمرہ عدالت یا کس جج کے چیمبر میں ان درخواستوں کی سماعت ہوئی تھی؟ متفر ق درخواستوں کی سماعت کے بعد ان کے فیصلے کے اجراء کیلئے کاز لسٹ کیوں جاری نہیں کی گئی تھی؟حکم نامہ سنانے کیلئے درخواستوں کو کسی کمرہ عدالت میں مقرر کیوں نہیں کیا گیا تھا؟فیصلے کی اصلی فائل اوراِن چیمبر سماعت کا حکم نامہ رجسٹرار آفس میں جمع کروائے بغیر ہی اس حکم نامے کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پرکیسے اپ لوڈ کروا دیا گیا؟حکم نامے کو سپریم کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا حکم کس نے دیاتھا؟ چیف جسٹس کے ان سوالات سے وضاحتی آرڈر کے معاملے میں قواعد و ضوابط کی متعددخلاف ورزیوں کا تاثر قائم ہوتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ تمام حقائق سامنے لا کر معاملات درست کیے جائیں۔