کالے کو ّؤں کی نفسیات، خصلت، فطرت، جبلت بارے تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں انکی چالیس سے کچھ زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں۔ کو ّاکسی بھی نسل، ملک خطے کا ہو، فطری طور پر خفیہ گھونسلوں میں رہنا پسند کرتا ہے۔ اس میںبہت ساری سماجی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ کوّے ملکر شکار کرتے، بال بچوں کا تحفظ کرنا بھی جانتے ہیں۔ زیادہ تر نسلیں آبادیوں سے دور بسیرا کرتی ہیں۔ امریکی نسل کے کالے نر، مادہ کوّے قد میں لمبے، چالاک و ہوشیار ہوتے ہیں۔ انکی اُڑان مستقل پھڑ پھڑانے والی حرکت رکھتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر کو ّے بڑی چالاکی سے بالغ پرندوں کا پیچھا کرکے انکے گھونسلوں کا سراغ لگاتے اور وہاں سے انڈے، بچے، خوراک تک چوری کرکے لے جاتے ہیں۔ یہ گروہ در گروہ حملہ آور ہونے کی بھرپور طاقت رکھتے ہیں۔ ان میں کچھ شریر اور ضرورت سے زیادہ تجسس کا شکار رہتے ہیں۔ کو ّؤں میں وقت اور حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے، مسائل حل کرنیکی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ خوراک کے ذخیروں پر چھاپہ مار کارروائیوں میں کھانے کی ضائع شدہ، گندی اشیاءپر ہاتھ صاف کرنے سے باز نہیں آتے۔ کچھ جارحیت پسند کو ّے اپنے سے بڑے پرندوں کا پیچھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سُپر اسمارٹ کو ّے آپ کی سوچ سے بھی زیادہ چالاک ہوتے ہیں۔ وہ کب،کیا واردات ڈالنے کا منصوبہ بناتے ہیں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے۔ کو ّؤں کی خصوصیات بارے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک دوسرے سے زندگی بھر ساتھ نبھاتے ہیں۔ اپنے دشمنوں کے چہرے کبھی نہیں بھولتے، ان کی دشمنی، ناراضی دلوں میں برقرار رہتی ہے۔ کو ّؤں کے حالات و واقعات زمینی و علاقائی تبدیلیوں کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں برابر شریک ہوتے ہیں۔ ان میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ہمارے سیاست دانوں میں عمومی طور پر نظر آتی ہیں کہ وہ ذخیرہ اندوزی بھی کرتے ہیں، اپنے روزمرہ وسائل چھپا کررکھتے ہیں ۔ دلچسپ تحقیق سے یہ حقائق بھی سامنے آئے کہ کو ّے خواہ امریکی ہوں یا افریقی، کالے ہوں یا بھورے، ان کی ایک دوسرے سے قریبی رشتے داریاں ہمیشہ قائم رہتی ہیں وہ جب بھی دوسرے ملک پرواز کرتے ہیں کو ّا برادری انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوے ممکنہ خطرات، دھمکیوں سے بروقت سبق حاصل کرتے اور ایسے کسی بھی مقام پر دوبارہ جانے سے ڈرتے ہیں جہاں ان کاکسی مقابلے میں کوئی نقصان ہوا ہو۔ آپ انہیں اس مقام پر لاکھ پیش کش کریں، وہ دوبارہ مقابلے کی ہمت نہیں کرتے۔ جہاں انہیں تحفظ اورماحول سازگار ملے، کھانے پینے کا وافر ذخیرہ بھی موجود ہو، کالے کو ّے وہاں اپنی آباد کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ محفوظ ماحول میں یہ بجلی کی تاروں کو چھونے سے بھی نہیں گھبراتے۔ حتیٰ کہ ان حرکتوں کی وجہ سے شہروں کے شہر تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں لیکن وہ اپنی کارروائیوںسے باز نہیں آتے۔ ترقی یافتہ ممالک کو ّؤں کی ان وارداتوں سے اس حد تک تنگ آچکے ہیں کہ انہوں نے بجلی کے کھمبوں کے اوپر مصنوعی گھونسلے (قید خانے) بنا کر خوراک کا بندوبست بھی کردیا ہے کہ نقصانات کم سے کم ہوسکیں۔ کچھ ماہرین حیوانات انہیں ”پنکھ والے بندر“ بھی کہتے ہیں۔ ان اُڑنے والے بندروں کا دماغ انسانی دماغ کے تناسب سے بہت بڑا ہوتا ہے۔ کوؤں کے دماغی لیبارٹری ٹیسٹ کے دوران حیرت انگیز تجزیہ سامنے آیا ہے۔اسی لئے سیاست دانوں کوسیانے کو ّے کہا جاتا ہے۔ خطروں کے یہ کھلاڑی کائیں کائیں کرتے تو نظر آتے ہیں، وارننگ کے طور پر علاقائی زبانوں میں بھانت بھانت کی بولیاں بھی بولتے ہیں، قریبی رشتے داروں کو خطروں سے نمٹنے کے سگنل بھی دیتے ہیں۔ اگر کوئی کو ّا اپنا سماجی گروپ بدلتا ہے تو مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش میں پہلے سے زیادہ کائیں کائیں کرنے لگتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ گروپ کے پہلے ارکان کی حرکات و سکنات سیکھ جاتا ہے۔ چند سیانے کو ّے اس حد تک ہوشیارہوجاتے ہیں کہ سرخ بتی بجھنے کا انتظار کرتے اور شکار پر جھپٹتے ہیں۔ سیانے کو ّؤں کو” شکاریوں“ کے خطرات سے بھی نمٹنا پڑتا ہے کہ جب ان کا حملہ آور سے واسطہ پڑتا ہے تو اچانک ان کی تعداد بڑھ کر طاقت کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ وہ حملہ آور کے خلاف ایک مقام پر جمع ہوتے ہیں، کچھ انفرادی کو ّے اپنی لمبی چونچوں سے ضربیں لگانے کی کوشش میںاکثر شدید چوٹوں سے دوچار ہو جاتے ہیں، حملہ آور کوؤں کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک ہوگیا تو ہدف پیچھے ہٹ جائے گالیکن اس کوشش میں کچھ غوطہ خور کوّؤں کو پیچھے ہٹنے سے پہلے ہی موت آجاتی ہے۔ یہ تحقیق مکمل طور پر ”دستاویزی“ کی جارہی ہے۔ بعض اوقات کوے پُرتشدد کارروائیوں کے اختتام پر اکٹھے ہوتے ہیں کیونکہ چھوٹی چھوٹی بولیاں بولنے والے کچھ پرندے خوف زدہ ہوتے کہ کہیں انہیں اجتماعی طور پر سزا نہ ملے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بروقت اقدامات نہ ہونے کی صورت میں کچھ کوے فوری تسکین کی خواہش کے خلاف مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیاسی کو ّؤں کو بہتر آپشن کا انتظار کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا اسی طرح ایک پرندہ خاموشی کے ساتھ بیٹھنے پر راضی تھا کہ اگر اسے یہ یقین ہو کہ ”فرائی مچھلی “ کیساتھ کچھ ”میٹھا“ بھی ہوتا تو بات بن جاتی۔ اس کے پاس دوسرا آپشن بھی تھا اسی لئے ”تنگ“ بیٹھنا اس کیلئے بے معنی تھا۔ جن کوؤں کو اس صورت حال سے دوچار کیا گیا تھا وہ آگے کیوں بڑھتے کہ جو انہیں کھانے کو پیش کیا گیا تھا وہ توانہیں میسر ہی تھا تو پھر اتنی جنگ کیوں؟ شاعر کوؤں کی اس پُرتشدد لڑائی کے ساتھ تعلق یا اس کے بعد سخت اور کرخت رونے سے بہت مایوس ہے اور کوّؤں کی لڑائی سے سخت نفرت کرتا ہے اور گریہ زاری کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس جنگ میں جمہوریت ، ملک و قوم کا بہت نقصان ہوگا۔