• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوگوں کی سوچ اور رویوں میں منفیت،شدت پسندی،نفرت، خونخوار عدم برداشت اچانک نہیں دَر آئے ، یہ برسوں سے کمائے دکھ ہیں ، زہریلی فصلیں بیجنے والوں نے نسلوں کو برباد کر دیا ۔اسے ایک دن میں ختم کرنا ممکن نہیں مگرسنجیدگی سے کوشش شروع کر دی جائے تو مطلع صاف ہونے کی امید لگائی جا سکتی ہے۔کچھ لوگ پیدائشی طور پر اور نامہربان حالات کے سبب بھی نفسیاتی مریض بنتے جاتے ہیں ۔پاکستان میں 35 سے 40 فیصد لوگ ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں پچیس کروڑ لوگوں کے لئے چھ سو نفسیاتی ماہرین آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ، جبکہ اس الجھے ہوئے معاشرے کے بپھرے اور بے لگام جنون کو تہذیب کے دائرے میں لانے کے لیے نفسیاتی ماہرین سے ماہانہ معائنہ لازم قرار دینا چاہیے۔ہمارا دھیان صرف وجود کو لاحق ظاہری امراض کی تشخیص اور علاج تک ہے ہم ذہن میں قائم بارود کی فیکٹریوں کے نقصانات سے باخبر ہونے کے باوجود اس طرف توجہ نہیں کرتے۔ہمارے ارد گر شدید نفسیاتی امراض کا شکارکتنے لوگ اپنا اور دوسروں کا سکون اور زندگیاں تباہ کر رہے ہیں لیکن ہم انہیں مریض ماننے کو تیار نہیں اور نہ وہ اپنا علاج کروانے پر رضامند ۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ نفسیاتی مرض کو شخصیت میں خلل کی بجائے پاگل پن سے تشبیہ دے کر اسے ایک خوف اور طعنہ بنا دیا گیا ہے اور کوئی بھی فرد اپنے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات و واقعات بگڑتے جا رہے ہیں سرکار کی سطح پر اس حوالے سے بہت کم اقدامات کیے گئے ہیں یا شاید مصائب ہی اتنے ہیں کہ ذہنی مسائل کو نظر انداز کرنا مجبوری ہے وہ مسائل جو ہر مسئلے کی جڑ ہیں،لیکن ہر اندھیرے میں کوئی نہ کوئی جگنوہماری آس کو توانا رکھتا ہے ہمارے درمیان بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں لیکن وہ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر ایسے فرائض سرانجام دیتے ہیں کہ انہیں سلام کرنے کو دل کرتا ہے یہی سچے اور کھرے انسان ہیں جو انسانیت کی تعریف پر پورا اترتے ہیں کیونکہ انسان وہی ہے جو دوسروں کا دکھ درد محسوس بھی کریں اور اس کا مداوا کرنے کی کوشش بھی۔

ہرانسان کے پاس جو ہنر ، علم اور استطاعت ہے اس کی بدولت اْسے دوسروں کی زندگیوں میں آسانیوں کا باعث بنناچاہیے ، تبھی وہ انسان کے درجے پر فائز ہونے کا حقدار بنتا ہے ۔ایک بہت اچھی انسان ڈاکٹر عاصمہ ناہید جو ایک ترقی یافتہ ملک میں پیدا ہوئی ،وہیں سے تعلیم حاصل کی لیکن اپنی مٹی کی کشش میں بندھی ہوئی سال میں کئی بار آتی ہےاور اپنے علم اور ہمدرد لہجے کے دیے جلا کر چلی جاتی ہےجن کی روشنی اور خوشبو مہینوں ڈھارس بندھاتی ہے ۔وہ نفسیاتی ڈاکٹر ہیں اپنی مدد آپ کے تحت انہوں نے اپنے گھر سے امید اور روشنی کا جو سفر شروع کیا وہ اب پاکستان کے کئی شہروں میں پھیل چکا ہے،مقصد خواتین اور بچوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا ہے ، ہمارے سماج میں آج بھی خواتین اور بچے سب سے آسان ٹارگٹ ہیں اس لئے زیادہ مسائل کا سامنا انھی کو ہے ۔ڈاکٹر عاصمہ ناہید نے نفسیاتی کئیر کلینکس کا جال بچھانے کا عزم کر رکھا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ کامیابیاں سمیٹ رہی ہیں ، وہ مختلف اداروں کا دورہ کر کے لوگوں کو ذہنی صحت کے حوالے سے شعور دیتی ہیں اورمتاثرہ لوگوں کو محبت سے کلینکس تک لاتی ہیں ۔مختلف سیمینارز اور ورکشاپس کا اہتمام کرکےمہربان اور باشعور سول سوسائٹی ممبران کو ہمنوا بناتی ہیں ، مجھے بھی لاہور میں ایک ایسی ورکشاپ میں حصہ لینے کا موقع ملا تو میں اْن کی خدمت خلق سرگرمیوں سے شدید متاثر ہوئی ،اصل میں یہ ورکشاپس نفسیاتی الجھنوں کا شکار افراد کی جذباتی ، ذہنی اور روحانی فلاح و بہبود کے لیے اہل دل کی توجہ پر دستک دے کر انہیں متحرک کرنا ہے کہ سماجی فلاح کے منصوبوں کو ہمدرد لوگوں کی مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ملک میں سرکاری اور نجی شعبہ صحت کےحوالے سے ہمیشہ بڑے بڑے دعوے کرتا رہا ہے مگر بیمار کے لیے آسودگی کا تصور محال ہے پچھلے دنوں ایک معتبر ادیب جو بیماری کی اذیت کے ہاتھوں بے حال تھے ، کو پی کے ایل آئی جانے کا مشورہ دیا ،وہ بڑی مشکل سے ہسپتال پہنچے اور تین چار گھنٹے کی جدوجہد کے بعد بھی رجسٹریشن کرانے میں ناکام رہے ،آخر کار مجھے وہاں جانا پڑا ، سنا تھا غریبوں کا علاج مفت ہوتا ہے ، پتہ چلا صرف 15یا 20 فیصد رعایت ہے اور بالکل مفت علاج کے لئے وزیراعظم تک رسائی ضروری ہے، تاہم علاج کے اخراجات کی تفصیل سن کر مریض کی آنکھوں میں ابھری مایوسی کی کیفیت دل چیر گئی ، مانا زندگی موت خدا کے ہاتھ ہوتی ہے لیکن انسان کو جیتے جی مرنے نہیں دینا چاہیے اس کی آس باقی رہنی چاہیے۔ ہسپتالوں میں ایسا نظام ہونا چاہیے کہ مریض جا کر اپنے آپ کو طبیب کے حوالے کر دے اور نظام خود بخود اس کے ٹیسٹ اور دوائیاں تجویز کرتا جائے ،لیکن یہاں علاج بھی احسان سمجھ کر کیا جاتا ہے کسی کو رحم آتا ہے نہ ترس ۔شہباز شریف صاحب نے یہ ہسپتال بنا کر یقیناً بڑی نیکی کی لیکن یہاں علاج جتنا مہنگا اور مشکل ہے اس کا 15 فیصد بھی غریب لوگ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ خدارا یہاں پر غریب اور سفید پوش لوگوں کے لیے علاج بالکل مفت کر دیجئے ۔ لوگوں کو مایوس نہ ہونے دیجیے، تڑپتے اور مایوس دل کی آہیں روحوں کا کرب بن جاتی ہیں۔

تازہ ترین