سندھ ہائی کورٹ نے دلائل سننے کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
عدالتِ عالیہ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔
جسٹس یوسف علی سعید نے کہا کہ درخواست پر فیصلہ آج ہی جاری کیا جائے گا۔
سماعت کے دوران جسٹس یوسف علی سعید نے سوال کیا کہ سندھ ہائی کورٹ سپریم کورٹ کے معاملات میں کیسے مداخلت کر سکتی ہے؟
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس سندھ ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا جائے اور عدالتی فیصلے تک اس پر عمل درآمد روکا جائے۔
آرڈیننس کے مطابق بینچ عوامی اہمیت اور بنیادی انسانی حقوق کو مدِنظر رکھتے ہوئے مقدمات کو دیکھے گا، ہر کیس کو اس کی باری پر سنا جائے گا ورنہ وجہ بتائی جائے گی۔
ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ہر کیس اور اپیل کو ریکارڈ کیا جائے گا اور ٹرانسکرپٹ تیار کیا جائے گا۔
تمام ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ عوام کے لیے دستیاب ہو گا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کمیٹی مقدمات مقرر کرے گی۔ کمیٹی چیف جسٹس، سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کے نامزد جج پر مشتمل ہوگی۔
آرڈیننس میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 3 میں ترمیم شامل ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ میں سیکشن 7 اے اور 7 بی کو شامل کیا گیا ہے۔
آرڈیننس میں موجود ہے کہ سماعت سے قبل مفاد عامہ کی وجوہات دینا ہوں گی، سیکشن 7 اے کے تحت ایسے مقدمات جو پہلے دائر ہوں گے انہیں پہلے سنا جائے گا، اگر کوئی عدالتی بینچ اپنی ٹرن کے بر خلاف کیس سنے گا تو وجوہات دینا ہوں گی۔