مشرقِ وسطی میں اِن دنوں اسرائیل کسی خوں خوار بھیڑیے کی مانند خون کی جو ہولی کھیل رہا ہے، اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں نہیں بلکہ زمانہ جاہلیت میں جی رہے ہیں۔ اُس زمانے میں جہاں کوئی قاعدہ،قانون نہیں تھا، انسان کا دامن تہذیب و تمدّن سے خالی تھا،طاقت ور جو چاہتا وہ کر گزرتا تھا، کوئی اسے روکنے والا نہیں تھا اور مظلوم کی داد رسی کا کوئی اصول وضح نہیں کیا گیا تھا۔
رقصِ جنوں میں مگن، اسرائیل جس حد تک جاچکا ہے، وہاں سے بہت پہلے انسانیت کی سرحدیں ختم ہوچکی تھیں ۔لیکن حیرت اُس پر نہیں بلکہ اُس مغربی دنیا اور اس کے طاقت ور ممالک پر ہے جوخود کو انسانیت دوست کہتی ہے ، دنیا کو انسانی حقوق کے تحفّظ کا سبق دیتی ہے، خطرناک اسلحے کا پھیلاو روکنے کے لیے ریاستوں پر طرح طرح سے دباو ڈال کرانہیں معاہدے کرنے پر مجبور کرتی ہے ، جانوروں پر تشدّد کے خلاف بھی آوازیں بلند کرتی ہے، ماحولیاتی بگاڑ کو درست کرنے کے لیے ہر برس عالمی سطح کی مجلس منعقد کرتی ہے اوراس مقصد کے لیے کروڑوں ڈالرز مختلف ممالک کو عطیہ کرتی ہے۔
اگر حمّاس کے گزشتہ اکتوبر کے حملے میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی شہریوں کی تعداد کو بارہ سو کے قریب مان لیا جائے اور اس کے جواب میں نام نہاد’’حقِ دفاع‘‘کو بھی قہراً، جبراً درست مان لیا جائے توکہاں بارہ سو اور کہاں بیالیس ہزار۔ اور لبنان، شام اوریمن میں اسرائیل کی خوں آشامی کی بھینٹ چڑھنے والے اس کے علاوہ ہیں۔ وہ جبر و استبداد اور مظالم کی جو بہیمانہ داستانیں رقم کررہا ہے، اُن سے نظریں یک سر پھیر لی گئی ہیں۔
ایسے میں امریکا کے وزیرِ دفاع لائڈ آسٹن نےاپنے اسرائیلی ہم منصب یوو گیلنٹ سے کہا ہے کہ امریکا، ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں کو لبنان کی صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے یا تنازعے کو پھیلانے سے روکنے کے لیے پر عزم ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز کے مطابق پینٹاگان کے ترجمان پیٹ رائڈر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ آسٹن نے اسرائیل کے حقِ دفاع کے لیے مکمل امریکی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ امریکا خطے میں امریکی افواج اور تنصیبات کے تحفظ اور اسرائیل کے دفاع کے لیے پُر عزم ہے۔
شاید لکھنؤ، بھارت،سے تعلق رکھنے والے اردو کے نسبتا کم معروف شاعر، مرزا شارق لاہر پوری نے ایسے ہی موقعے کے لیے یہ شعر کہا تھا:
قتل امیر شہر کا لاڈلا بیٹا کر گیا
جرم مگر غریب کے لخت جگر کے سر گیا
اور دوسری جانب اسرائیل کی جو خواہشیں اور فرمائشیں ہیں اور جس طرح اسے فوری مالی اور عسکری امداد دے کر خوش رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جس انداز سے اس کے قتلِ عام سے آنکھیں موندی جارہی ہیں، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ مغربی طاقتوں کا کتنا چہیتا اور لاڈلا ہے۔پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز فکشن لکھنے والے، ادیب اور شاعر اسد محمد خان نے شاید ایسے ہی لاڈلوں اور دُلاروں کے لیے یہ شعر کہاتھا :
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند
کیسی انوکھی بات رے
خطابات سے خطابات تک
ایک جانب وہ لاڈلا ہے اور دوسری جانب مسلم دنیا میں کہرام برپا ہے۔لیکن بات خطابات سے آگے نہیں بڑھ پارہی، جو مسلم اور غیر مسلم، دونوں طرح کے راہ نما کررہے ہیں۔ ذرا اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ہونے والی تقاریر ہی کو دیکھ لیں:
ہمارے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی ذمے دار پوری دنیا ہے، فلسطینی صدر، محمود عباس
غزہ میں نہ صرف بچے بلکہ اقوام متحدہ کا نظام بھی دم توڑ رہا ہے ۔۔ اقوام متحدہ میں ایردوان کا خطاب۔
پاکستان کے وزیر اعظم کی جانب سے ترکیہ کے صدر کے خطاب کی ستائش۔
اسرائیل لبنان میں جنگ سے اجتناب کرے،عالمی راہ نماؤں کا اقوام متحدہ میں مطالبہ۔
مکمل پیمانے پر جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے ۔ صدر بائیڈن کا اقوام متحدہ میں الوداعی خطاب۔
فرانس نےاس بحران پر سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس کا مطالبہ کیا۔
یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوزپ بوریل نے خبردار کیا کہ ہم تقریباً ایک مکمل جنگ میں ہیں۔
فلسطین کی صورت حال ایک نہ ختم ہونے والا ڈراؤنا خواب ہے : گوتریس
تنازعات کے پر امن حل کے لیے ثالثی جاری رکھیں گے: امیر قطر تمیم بن حمد الثانی
اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی بے عملی بے معنی اور ناقابل فہم ہے۔عالمی برادری لبنان کو ایک اور غزہ نہ بننے دے: ایرانی صدر،مسعود پزشکیان
فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی جنگی جرم ہوگا : اردن کے شاہ عبداللہ
عالمی راہ نماؤں نے پچّیس ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ لبنان میں جنگ سے اجتناب کرے اور اسلامی ملکوں نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے ضمن میں اقوام متحدہ، امریکا اور مغربی ملکوں پر تنقید کی۔ ترکیہ کے صدر ایردوان نے ایک سخت تقریر میں کہا کہ غزہ میں نہ صرف بچے بلکہ اقوام متحدہ کا نظام بھی دم توڑ رہا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے رجب طیب ایردوان کے خطاب کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی تقریر انتہائی پرجوش تھی اور جس طرح انہوں نے غزہ اور فلسطین کا مسئلہ بیان کیا، میں سمجھتا ہوں کہ اس نے جو لوگ وہاں موجود تھے، ان کے دلوں کو چھولیا۔
غیر متعلق اقوامِ متحدہ
ایسے وقت میں جب فلسطینی علاقوں، بالخصوص، غزہ میں اسرائیل اکتوبر 2023 سے اندھا دھند بم باری کر رہا ہے اور اس کی وحشت کو روکنے کے لیے کی جانے والی کوششیں ناکام ہورہی ہیں، یہ واضح نہیں ہے کہ وہاں کشیدگی کم کرنے کے لیے کیا پیش رفت کی جا سکتی ہے۔
گزشتہ برس، سات اکتوبر کو فلسطینی گروپ حماس کے اسرائیل پر حملےکے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں جوابی فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا جس میں حکام کے مطابق بیالیس ہزارسے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اور اب لبنان میں اس کی جارحیت کی وجہ سے پانچ سو سے زاید افراد راہیِ ملکِ عدم ہوچکے ہیں۔
یہ بحران شروع ہونے کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں متعدد محاذوں پر تشدد بھڑک اٹھا ہے اوراس تنازعے نے اقوام متحدہ میں گہری تقسیم کو بے نقاب کیا ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تھنک ٹینک کے رچرڈ گوون کا اس بارے میں کہناہے کہ انہیں توقع ہے کہ بہت سے راہ نما انتباہ کریں گے کہ اگر اقوام متحدہ کا ادارہ قیام امن میں مدد نہیں کر سکتا تو وہ عالمی سطح پر غیر متعلق ہو جائے گا۔
اسرائیل کی ڈھٹائی
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے اقوام متحدہ کے سربراہ پر جوابی حملہ کرتے ہوئے جنرل اسمبلی کی بحث کو’’منافقت کا سالانہ ڈراما‘‘ قرار دیا۔ ڈینن نے کہا کہ جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ہمارے یرغمالوں کی رہائی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اقوام متحدہ کی اسمبلی خاموش رہتی ہے، لیکن جب وہ غزہ میں ہونے والے مصائب کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان کے لیے زور دار تالیاں بجتی ہیں۔
اسرائیل کی طاقت کا راز
آج اسرائیل کو دنیا میں جو طاقت حاصل ہے اور آج اسے جو کچھ کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہےاس کی کئی وجوہات ہیں۔
اسرائیل مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کے درمیان ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ برطانیہ نے 14 مئی 1948 کو فلسطین کا نظم و نسق چھوڑ دیا اور یہودیوں نے اپنی ریاست اسرائیل کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل کی ریاست نہ صرف قائم رہی بلکہ اپنا اثر و رسوخ بھی بہت بڑھا چکی ہے۔تب سے اب تک اسرائیل ایک ریاست کے طور پر مضبوط ہوا اور عرب ریاستوں کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔
اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ایٹمی طاقت والا ملک ہے۔ یہ واحدایسا ملک ہے، جو بہ راہ راست صرف مذہب کی بنیاد پر شہریت دیتا ہے، چاہے یہودی دنیا کے کسی بھی حصے سے ہوں۔ اپنے قیام سے اب تک کے عرصے میں اس نے سائنس، ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری حوالے سے دنیا میں مستحکم حیثیت بنائی۔
تاہم ایسا ممکن بنانے میں کئی عوامل نے کردار ادا کیا۔دراصل اسرائیل کو اس کے قیام سے ہی برطانیہ، فرانس اور امریکا کی حمایت حاصل رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل کی طاقت کے پیچھے مغربی دنیا، خاص طور پر امریکا کا بڑا ہاتھ ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد اسرائیل سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا ملک ہے۔برطانیہ نے پہلی عالمی جنگ کے بعد فلسطین کو اپنا نوآبادیاتی علاقہ بنا لیاتھا، جس سےچار سو سالہ عثمانی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ فرانس کا علاقہ بھی درمیان میں تھا، حالاں کہ اس خطے پر سمجھوتے کے تحت برطانیہ کی حکومت تھی۔
اسرائیل بنیادی طور پر سپر پاورز کی حمایت سے وجود میں آیا، جس نے اسرائیل کو بااختیار بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ یہودیوں کو اپنا علاقہ بنانے کا خیال بنیادی طور پر برطانوی حکومت کی طرف سے ہی آیا۔ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک سے یہودی گروہ در گروہ فلسطین کی سرزمین پر آنے لگے۔ فلسطین میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی بھی رہتے تھے۔
اسرائیل کو مغرب میں دیگر وجوہ کے ساتھ اس لیے بھی پذیرائی ملی کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہودیوں کے تعلیمی، ثقافتی اور سائنسی پہلو عربوں سے مختلف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو ایک مغربی ملک تصور کیا جاتا ہے اور 70 کی دہائی سے اسرائیل کی عرب ریاستوں کے ساتھ مفاہمت کی راہ امریکا کی مددسے ہم وار ہونا سے شروع ہوئی۔
ماہرینِ بین اقوامی امور کے مطابق بقا کی جدوجہد نے اسرائیل کو مضبوط بنا دیا۔ تاہم بعض ماہرین کا موقف ہے کہ اسرائیل کا فوجی اورتیکنیکی غلبہ مغرب کی وجہ سے ممکن ہوا۔وہ کہتے ہیں کہ امریکی محالفت کے باوجود ایران نے تیکینکی طورپر ترقی کی، مگر اسرائیل کی ترقی کی وجہ امریکا سے دوستی تھی۔ اسی دوستی کے سہارے اسرائیل نے جدید ہتھیاروں، سائبر سکیورٹی، فضائی دفاع، میزائل سسٹم اور انٹیلی جنس آپریشنز پر توجہ مرکوز کی۔
امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا نے اسرائیل کی ٹیکنالوجی کے میدان میں جدت حاصل کرنے کے عمل کو بہت مدد فراہم کی۔ یاد رہے کہ امریکی کانگریس نے مالی سال 2023 میں 520 ملین ڈالر کے مشترکہ فوجی منصوبوں کی منظوری دی تھی، جس میں میزائل کی ترقی کے لیے 500 ملین ڈالر بھی شامل تھے۔
دوسری جانب ایک ریاست کے طور پر اسرائیل شروع ہی سے عسکری طور پر مضبوط ہونے کی کوشش کرتا رہا، کیوں کہ عرب ریاستوں کے درمیان اس کے زندہ رہنے کا یہی واحد راستہ تھا۔اسرائیل نے اپنی عسکری قوت کو حکمت عملی اور دور اندیشی کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا۔ ملک میں اٹھارہ برس کی عمر کے بعد تمام یہودی شہریوں کے لیے فوجی سروس لازم ہے۔ مردوں کے لیے 32 ماہ اور خواتین کے لیے 24ماہ کی فوجی تربیت ہے۔
ملک 60 کی دہائی میں ایٹمی طاقت بن گیاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ فرانس نے اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں اس کی مدد کی تھی۔اسرائیل نے اپنے ایٹمی پروگرام کو انتہائی رازداری کے ساتھ آگے بڑھایا ۔ برطانوی میڈیا ’’دا گارڈین‘‘ نے 15 جنوری 2014 کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ امریکا اور برطانیہ نے اسرائیل کے جوہری پروگرام پر بڑی حد تک آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ مغربی ممالک نے اس کے بارے میں نہ جاننے کا بہانہ کیا۔
دوسری جانب امریکا مشرق وسطیٰ کے مسلم اکثریتی ممالک کو جوہری طاقت کے حصول سے روکنے کے لیے پرعزم تھا۔اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق امریکاکے ساتھ تعلقات اور سرمایہ کاری نے اسرائیل کو عسکری اور اقتصادی طور پر فائدہ پہنچایا۔ اس طرح اسرائیل نے ’’اسٹارٹ اپ قوم‘‘ کے طور پر اپنی ساکھ بنائی۔
نہ صرف فوج بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی اسرائیل کی حیران کن کام یابیوں میں سے ایک اس کا زرعی شعبہ ہے۔ فلسطینیوں کو نکال کر اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تو پانی اور زرخیز زمین کی کمی تھی۔ اسرائیل ایک زرعی ریاست سے ہائی ٹیک اقتصادی نظام میں تبدیل ہو گیا۔
ملک نے جدید آب پاشی کے انتظام کے ذریعے صحرا میں مختلف اقسام کی فصلیں اگانے میں کام یابی حاصل کی۔ امریکی انٹرنیشنل ٹریڈ ایڈمنسٹریشن کے مطابق اسرائیل کی فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری مسلسل جدت سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل کی فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری نے 2020 میں 19 ارب ڈالر کی آمدن حاصل کی اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔
اسرائیل جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ ملک میں جدید ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے اسٹارٹ اپس کی تعداد لاکھوں سے زیادہ ہے۔اسرائیل کی قیادت فوج، زراعت، تعلیم اور بین الاقوامی تعلقات میں طویل المدتی سوچ رکھتی ہے۔ ملک کی قیادت کا انداز اور پالیسی قدرے مختلف ہے۔وہ فیصلہ سازی میں طویل المدتی اہداف اور بین الاقوامی تعلقات کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسرائیل کے یہودی اصل میں سمندر پار خاص طور پر یورپ سے اس خطے میں آئے تھے۔ اٹھارویں سے انیسویں صدی تک یورپ میں علم کی ترقی کا حصہ یہودی دانش ور تھے،جنہوں نے اسرائیل کو ایک انتہائی ذہین، جدید، تعلیم یافتہ قوم کے طور پر قائم کیا۔وہ 30 اور 40 کی دہائی میں اسرائیل کی سرزمین پر آئے اور ان کی مدد سے اسرائیل ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنسی ریاست بن گیا۔
مشرق وسطیٰ میں، جہاں غربت، عدم مساوات اور تعلیم کی کمی تھی ،وہاں اسرائیل ایک مختلف معاشرے کے طور پر ابھرا ۔لیکن دوسری جانب ماہرینِ سیاسیات کہتے ہیں کہ اسرائیل خواہ کتنا ہی جدید یا طاقت ور کیوں نہ ہو، اس کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیاں، فلسطینی سرزمین پر قبضے اور لوگوں کے خلاف تشدد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
آج ان کے حوصلے بہت بڑھ چکے ہیں ۔اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بعد لبنان میں بھی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک بار پھر ’’وسیع تر اسرائیل‘‘ کے تصوّر کی گونج ہے۔ لیکن یہ بے بنیاد پراپیگنڈا نہیں، بلکہ یہودیوں کا بہت قدیم خواب ہے۔ اس ضمن میں رواں برس جنوری میں اسرائیلی مصنف ،ایوی لپکن کے ایک انٹرویو کو بہت شہرت ملی تھی۔
انٹرویو میں ان کا کہنا تھا: ایک دن آئے گا جب ہماری سرحدیں لبنان سے لے کر سعودی عرب کے عظیم صحراؤں سے ہوتی ہوئی بحیرہ روم سے لے کر نہرِ فرات (عراق) تک پھیلی ہوں گی‘‘ ۔ انہوں نے وسیع تراسرائیل کے تصور پر بات کرتے ہوئے کہا تھا: ’’فرات کے دوسری جانب کُرد ہیں جو ہمارے دوست ہیں۔ ہمارے پیچھے بحیرہ روم ہے اور ہمارے آگے کُرد۔۔۔ لبنان کو اسرائیل کے تحفظ کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مکہ اور مدینہ اور طورِ سینا پر بھی قبضہ کریں گے اور ان جگہوں کو پاک کریں گے‘‘۔
طویل جدوجہد، ہوش مندی اور چالاکی
اسرائیل کو کام یاب بنانے اور اسے موجودہ مقام تک لانے میں اس کی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کا بھی بہت اہم کردار ہے۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہدف تک پہنچنےکے لیے طویل جدوجہد کرتی ہے اور اس دوران جذبات کے بجائے ہوش مندی اور چالاکی سے کام لیتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے چند ماہ کے دوران غیر ملکی سرزمینوں پر حملوں کے بعد سے اس کی انٹیلی جنس کی قابلیت کی تعریف دنیا بھر میں ہو رہی ہے اور ان کارروائیوں کو کسی جاسوسی ناول کی کہانیوں سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔
اسرائیلی فضائیہ نے چند یوم قبل ہی جنوبی بیروت کے علاقے ضاحیہ پر حملہ کیا تھا جس میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کے ساتھ گروپ کے دیگر سینیئر کمانڈر بھی شہید ہو گئے تھے۔ اس سے ایک ہفتہ قبل حزب اللہ کے مواصلاتی نظام کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا اور تنظیم کے اراکین کے زیرِ استعمال پیجرز اور واکی ٹاکیز پھٹنے سے تقریباً 37 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یوں اگر چند ماہ پر نظر دوڑائی جائے تو اسرائیل کو ٹکر دینے والی عسکری تنظیم، حزب اللہ، جس کے ساتھ اس کی 2006 میں ہونے والی جھڑپ بے نتیجہ رہی تھی، کے متعدد سینیئر کمانڈرزاب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان میں سے اکثر کا سفرِ عدم بارہ، چودہ یوم میں ہواہے۔ اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، جب اسرائیل نے کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر کوئی کام یاب کارروائی کی ہو۔ اس سے قبل وہ شام اور ایران میں بھی ایسی ہی کارروائیاں کر چکا ہے۔
رواں برس اپریل میں اسرائیل نے شام کے شہر دمشق میں بھی ایرانی سفارتی عمارت کو نشانہ بنایا تھا۔اس حملے میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ اہل کاروں سمیت 13 افرادجان کی بازی ہار گئے تھے۔اس کے علاوہ رواں برس ہی جولائی میں ایک حملے میں فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ تہران میں ایک حملے میں شہید ہوگئے تھے۔ اگر چہ اسرائیل نے ان کی شہادت کی ذمے مہ داری قبول نہیں کی تھی، تاہم غالب گمان یہ ہی کیا جاتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہی تھا۔
ایران پر موساد کی خاص نظر
ایران اگرچہ اس وقت اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن نظر آتا ہے اور دونوں ممالک طویل عرصے سے سینگیں پھنسائے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن گہرا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ اس عمل میں اب تک ایران کو مختلف محاذوں پر اسرائیل کے ہاتھوں کافی زیادہ نقصانات پہنچے ہیں جن میں سے بعض بہت شدید نوعیت کے ہیں، مثلا اس کے جوہری پروگرام اور اس سے منسلک افراد کو پہنچایا گیا نقصان۔ پھر حال ہی میں حمّاس کے سیاسی شعبے کے سربراہ، اسماعیل ہنیہ پر ہونے والا جان لیوا حملہ، ایرانی سرزمین پر کسی غیر ملکی سیاسی شخصیت کے قتل کا انتہائی اہم واقعہ ہے جس کی ماضی قریب میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
یہ دو فروری2017کا دن تھا۔ چند نامعلوم افراد نے تہران کے شور آباد صنعتی زون میں ایک گودام کے دروازے توڑے اور سات گھنٹے سے بھی کم وقت میں ستّائیس تجوریوں کے تالے توڑ کر ایسے ہزاروں نقشے، مسودے اور سی ڈیز تک رسائی حاصل کر لی جن میں ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات موجود تھیں۔
اس خفیہ کارروائی کے تین ماہ بعد، یہ چوری شدہ دستاویزات اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں منظر عام پر لائی گئیں۔ تل ابیب، شور آباد سے دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے درجنوں دستاویزات اور سی ڈیز کی رونمائی کی تھی جو اُن کے بہ قول موساد کے ایجنٹ تہران سے چوری کر کے اسرائیل لائے تھے۔
اس وقت تو ایران کے اعلیٰ عہدے داروں نے اس دعوے کو جھوٹا اور دستاویزات کوجعلی قراردیا تھا، لیکن صدارتی انتخابات کے موقع پر اس وقت کے صدر حسن روحانی سمیت کئی اعلیٰ ایرانی عہدے داران نے ان دستاویزات کے چوری ہونے کی تصدیق کی تھی۔جوہری دستاویزات کی نمائش کے تقریباً ڈھائی سال بعد، محسن فخری زادہ کو تہران کے مشرق میں 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مشہور شاہ راہ پر ایک آپریشن میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعدوہاں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔
بہت سے سابق ایرانی عہدے داروں کا خیال ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی، موساد، کا ایران کی سکیورٹی سروسز اور پاسدارانِ انقلاب پر سب سے زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے کئی برس قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملک کی وزارتِ جاسوسی ان کے گھر کی نگرانی اور ان کی جاسوسی کرتی ہے۔
ایک سابق ایرانی انٹیلی جنس وزیر، علی یونسی نے تین برس قبل خبردار کیا تھا کہ ملک کے مختلف حصوں میں موساد کا اثر و رسوخ اس طرح ہے کہ ایران کے تمام عہدے داروں کو اپنی جانوں کی فکر ہونی چاہیے۔ایک محقق اور قومی مذہبی کارکن، رضا علیجانی کا کہناتھا کہ ان افراد کی گرفتاری اور قید کی خبروں کا اعلان نہیں کیا گیا کیونکہ یہ خفیہ اداروں اور پورے نظام کو بدنام کر سکتا ہے۔
علی جانی،جنہوں نے ایران کی انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں پر اسرائیلی اثر و رسوخ کے حوالے سے تحقیق کی ہے، نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو چند برس قبل ایرانی سکیورٹی فورسز کے اہل کاروں کے حوالے سے بتایا تھاکہ ان کی ذمے داریوں کی تفصیل میں صرف اندرونی دشمنوں، حکومتی ناقدین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کرنا شامل ہے۔
یہ اور انتظامی ڈھانچے کی کم زوریوں کے باعث اسرائیلی خفیہ ایجنسی حکومت کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔اسی طرح پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے ایک سابق انٹیلی جنس ماہر، جنھوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا تھا، بتایاتھا کہ پاسداران انقلاب میں غیر ملکی عناصر کا اثر و رسوخ برسوں پہلے شروع ہو چکا تھا۔