• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں کسی کے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں حالانکہ مغل پورہ ٹیکنیکل کالج( یو ای ٹی کا پہلا نام) اس سکھ نیشنل کالج سے ملحقہ احاطے/ جگہ پر کام کر رہا تھا۔ 1947ءمیں سکھ نیشنل کالج کو میکلیگن کالج آف انجینئرنگ، پنجاب کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے حوالے کر دیا گیا اور اسے انیکسی بلاک کا نام دیا گیا اور ایک مدت تک اس عمارت میں سول انجینئرنگ ، آرکیٹیکچر ڈیپارٹمنٹ اور سی آر پی کے ڈیپارٹمنٹ کام کرتے رہے ۔آج کل یہاں پر کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ ہے جس کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فرحت یاسمین ہیں ۔یہ خوبصورت عمارت نیم گولائی کی صورت میں ہے کبھی اس عمارت کے مرکزی حصے پر انگریزی میں SIKH NATIONAL COLLEGE 1938 لکھا ہوتا تھا اور یہ نام بڑی مدت تک اس کے مرکزی دروازے پر لکھا رہا۔ دکھ کی بات یہ ہے جب ایک عمارت سکھوں نے تعمیر کی تھی تو اس کے اوپر اس کا نام اگر آج بھی لکھا رہتا تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا ہمارے نزدیک اس کے نام کی تختی کو مرکزی عمارت سے نہیں اتارنا چاہئے تھابعض حوالوں میں اس کالج کے قیام کی تاریخ1924-23ء ہے انگریزی میں بڑے بڑے الفاظ میں لکھا ہوا ہے اس کی عمارت پر کبھی 1932ء نہیں لکھا گیا تھا۔ سکھ نیشنل کالج کی عمارت پر ایک جھنڈا بھی لگا ہوتا تھا اور یہ عمارت 1926-27ء میں تعمیر ہوئی تھی اس حوالے سے اب اس عمارت کو سو برس ہو چکے ہیں ہر کشن لال نے اس کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس کے لیکچرز تھیٹرز میں آج بھی 1938کا فرنیچر پڑا ہوا ہے جہاں پر آج مستقبل کے انجینئرز بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہم جب دو مختلف لیکچرز تھیٹرز میں گئے تو 1938کا فرنیچراور اس کی پائیداری دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کاش اس تاریخی عمارت کی دیکھ بھال بھی اچھے انداز میں ہو سکے۔ یو ای ٹی جو انجینئر اور ماہرین تعمیرات سے بھری پڑی ہے اسکے اندر تاریخی عمارات کی خستہ حالی سمجھ سے باہر ہے ۔ایک زمانے میں یو ای ٹی میں کئی اور قدیم عمارات اور ایک بڑا تاریخی درخت تھا ، ایک سابق وائس چانسلر نے ان عمارات کو گرا دیا اور تاریخی درخت کٹوا دیا تھا۔ سکھ نیشنل کالج کی چھتوں کی حالت بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ یو ای ٹی کی قدیم عمارات میںسے ایک عمر ہال گرلز ہاسٹل اور ایک علی مردان ہال بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں مگر دونوں عمارات میں سے علی مردان ہال کی حالت خاصی نا گفتہ بہ ہے۔ کبھی عمر ہال کی عمارت بھی پیلی اور سفید رنگ کی تھی یہ اب لڑکیوں کا ہاسٹل ہے اس کی صورتحال کچھ بہتر ہے لیکن یہ قدیم فن تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے اس عمارت میں دو گنبد ہیں جن کے اوپر جانے کے راستے اب بند کر دیئے گئے ہیں۔ عمر ہوسٹل کو کبھی بی Bہوسٹل اور علی مردان ہوسٹل کو ڈی Dہوسٹل کہا جاتا تھا۔ سکھ نیشنل کالج میں آج بھی ایک پرانا لال رنگ کا لیٹر بکس ہے جہاں پر آج بھی ڈاکیا ڈاک لینے آتا ہے اب بھی کوئی بھولا بسرا اس لیٹر بکس میں خط ڈال دیتا ہے باقاعدہ لیٹر بکس پر ڈاک لے جانے کے اوقات درج ہیں۔ یو ای ٹی کے اندر پرانی عمارات تو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

جس زمانے میں سکھ نیشنل کالج تعمیر کیا گیا تھا اس زمانے میں یہ سارا علاقہ ایک جنگل کی صورت یا کھلے میدان کی طرح تھا۔ اور بدھو کا آوا جو کہ اس تاریخی عمارت کے بہت قریب ہے کہا جاتا ہے کہ یہ سارا علاقہ بدھو کا تھا۔ بہرحال آج بدھو کا آوا اور ایک تاریخی سٹون انتہائی خستہ حالت میں ہے یہاں کوئی گوردوارہ بھی تھا ویسے یو ای ٹی میں جو عمر ہال ہے جہاں پر اب گرلز ہوسٹل ہے اس کا طرز تعمیر اور اس کے گنبد گوردواروں جیسے ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ بھی گوردوارہ ہو ہم نے جب یہ ساری عمارت دیکھی تو اس کے کمرے اور برآمدے کچھ اسی قسم کی عکاسی کرتے ہیں۔آج بھی اس کے قدیم فرش صاف ستھرے اور اچھی حالت میں ہیں۔ یہ قدیم ہوسٹل واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ سکھ نیشنل کالج، یو ای ٹی، گلابی باغ، بدھو کا آوا، شالا مار باغ، پاکستان منٹ (جہاں سکے تیار کئے جاتے ہیں) اور 1965ءکے شہدا کی یادگاریں سب کچھ اس سڑک پر ہیں بلکہ اور بھی بہت ساری تاریخی عمارات تھیں جن کے اب نام و نشان مٹ چکے ہیں۔

6ستمبر 1965ء لاہوریوں کےلئے ایک بہت بڑا یادگار دن تھا اس سڑک، جس پر یہ سب کچھ ہے واہگہ پنڈ جو اب واہگہ بارڈر کے نام سے زیادہ مشہور ہے اسی سڑک پر بھارتی فوجی رات کی تاریکی میں میرے لاہور پر حملہ آور ہوئی تھی۔ قارئین کے لئے یہ بات بڑی دلچسپ ہو گی کہ شہر لاہور یعنی لاہور ریلوے اسٹیشن سے رات کو 9/10بجے ایک آخری ڈبل ڈیکر اور کبھی دوسری عام بس واہگہ پنڈ جاتی تھی پھر یہ بس وہیں سرحد کے بالکل قریب رات بھر کھڑی رہتی تھی ڈرائیور اور کنڈیکٹر بس کے اندر سو جایا کرتے تھے اور صبح پانچ/چھ بجے یہ پہلی بس واہگہ کے دیہاتی علاقوں کی سواریوں کو لاہور لیکر آتی تھی اس ڈبل ڈیکر پر ہم نے خود سفر بھی کیا ہوا ہے۔ یہ سارا سرحدی علاقہ کھلے کھیت اور بڑا خوبصورت تھا ہر طرف ہریالی تھی اور رات کو ہو کا عالم ہوتا تھا یہ سب کچھ ہم نے خود دیکھا ہوا ہے ایک چھوٹی سی سڑک ہوتی تھی جس پر کوئی لائٹ نہیں ہوتی تھی اب تو واہگہ بارڈر پر روزانہ پریڈ کی وجہ سے بہت رونق ہوچکی ہے یہ سارا علاقہ اب کمرشل ہو چکا ہے۔شام پانچ /چھ بجے کے بعد شالا مار باغ سے آگے لوگ نہیں جایا کرتے تھے گھپ اندھیرا ہوتا تھا بعض دیہات میں بجلی بھی نہیں تھی اور یہاں پر ڈاکو وغیرہ لوگوں کو لوٹ لیا کرتے تھے اس طرح بیدیاں اور برکی گائوں میں کوئی لاہوریا شام پانچ بجے کے بعد نہیں جاتا تھا آج آپ ان علاقوں میں رات کے بارہ بجے بھی نہیں گزر سکتے اتنا رش ہو گیا صرف پچاس برس میں پورے لاہور کا نقشہ تبدیل اور حلیہ بگڑ گیا ہے وہ خوبصورت لاہور جس کا ذکر شعرا اور ادیب اپنی شاعری اور تحریروں میں کیا کرتے تھے وہ کب کا ختم ہو گیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین