کیا کسر باقی رہ گئی تھی کہ اب عمران خان کے چہیتے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈا پور ایک گولی کے مقابلے میں دس گولیاں مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے قبائل سمیت صوبے کے لوگوں کو اپنے ایک انتہائی اشتعال انگیز پیغام میں تشدد کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے گنڈاپور کو شاباشی ہی مل رہی ہے اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک بڑے ٹکرائو کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے۔ جس طرز کی اشتعال انگیزی اور جو گولی مارے گا وہ گولی کھائے گا جیسے پیغام دینا کون سی سیاست ہے؟صاف نظر آ رہا ہے کہ نہ9مئی سے عمران خان اور تحریک انصاف نے کوئی سبق سیکھا اور نہ ہی اُن مشکلات اور تکلیفوں سے جس کا 9مئی کی وجہ سے پی ٹی آئی اور اس کے رہنمائوں کو سامنا ہے۔ تکلیفیں اور مشکلات پہلے بھی مختلف سیاسی جماعتیں سہتی رہیں لیکن کسی نے نہ 9 مئی کیا نہ ہی ایک گولی کے بدلے دس گولیاں مارنے کی دھمکیاں دیں۔ پہلے ہی تحریک انصاف کے لوگ سیاسی مخالفت میں دوسروں سے نفرت اور عمران خان کی محبت میںاس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ ملک پیچھے رہ گیا ہے۔ صرف اس لیے کہ اپنی سیاست کو فائدہ پہنچے ۔کوئی اپنے ملک کو مشکلات میں دیکھ کر کیسے خوش ہو سکتا ہے؟ ملک کے لیے کوئی اچھی خبر آئے تو ناخوش ہوں!! بُری خبر پر خوش ہوں اُسے خوب اچھالیں صرف اور صرف اس لیے کہ اس میں اپنا سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے۔ معاشی طور پر ملک کے لیے کوئی خبر اچھی ہو تو اُس پر منہ بن جائیں اور اگر کوئی خرابی سامنے آ جائے تو اُسے خوب اچھالا جائے صرف اس لیے کہ مخالف ناکام ہوں اور اپنی سیاست کامیاب ہو۔ جھوٹی خبریں بھی پھیلائی جائیں چاہے اس کا کتنا ہی نقصان اپنے ملک اور اپنی ملک کی معیشت کو ہو، اور توجہ صرف ایک نکتہ پر ہو کہ کس طرح اپنے لیڈر اور اُس کی سیاست کو کامیابی ملے۔ اپنی سیاست کی کامیابی کے لیے کوئی اتنا بھی گر سکتا ہے کہ ملک کو دیوالیہ کرنے کی منصوبہ بندی میں شامل ہو جائے۔ خواہش کی جائے اور باقاعدہ اس کے لیے منصوبہ بنایا جائے کہ کیسے ملک کو سری لنکا بنا دیا جائے۔ ایسے منصوبوں کے ثبوت بھی سامنے آ جائیں لیکن اس پر شرمندگی کی بجائے رویہ اور سوچ وہی منفی کی منفی رہے۔ یہ کیسی سیاست ہے جو نفرت کو اتنا بڑھا دے کہ ملک پیچھے رہ جائے اوراپنی سیاست اور سیاسی رہنما کو فوقیت دی جائے۔ اپنے مخالفین بشمول اسٹیبلشمنٹ پر خوب تنقید کریں، جو زیادتیاں ہو رہی ہیں اُن کے خلاف آواز ضرور اُٹھائیں، عدالتی اور قانون جنگ لڑیں لیکن کسی ایسی بات پرخوش ہوں جو پاکستان کے فائدہ میں نہیں یا جو پاکستان کے لیے نقصان کا باعث بنے۔ اگر پاکستان دیوالیہ ہوتا یہ تو نقصان پاکستان کا ہے، پاکستان کے عوام کا ہے چاہے اُن کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو۔ یہ خواب دیکھنا کس سیاست کا نام ہے کہ اگر پاکستان دیوالیہ ہو گا اور یہاں خانہ جنگی کی سی حالت ہو گی تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کمزور ہوں گے جس کا فائدہ کسی ایک رہنما یا کسی ایک سیاسی جماعت کو ہو گا اور اُن کا حکومت میں آنے کا چانس بن جائے گا۔ورنہ ایک وزیراعلیٰ کیسے اپنے صوبے کے لوگوں کو ایک کے مقابلہ میں دس گولیاں مارنے کے لیے تیار کر سکتا ہے۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ تحریک انصاف کے کسی رہنما نے گنڈاپور کی طرف سے خیبرپختون خوا کےعوام کو تشدد کے لیے اکسانے پر نہ مذمت کی نہ اس سے فاصلہ اختیار کیا۔تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ عمران خان گنڈاپور جیسے کرداروں کو پسند کرتے ہیں، اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، جو مخالفوں اور اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ بدتمیزی کرے اُس کو شاباشی ملتی اور جو شرافت اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر سیاست کرے اُسے ڈانٹا جاتا ہے اور عوامی سطح پر اُسے بزدل کہا جاتا ہے چاہے وہ شخص تحریک انصاف کا چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان ہی کیوں نہ ہو۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے اپنے ووٹروں سپورٹروں کو بھی ایسی ہی نفرت اور منفی سوچ کا مالک بنا دیا۔اُن کے لیے بھی گنڈاپور ایک ہیرو ہے۔