پنجابی زبان میں عنوان باندھا ہے۔ نسرین انجم بھٹی حیات ہوتیں تو نہال ہو جاتیں۔ مفہوم سادہ ہے کہ کہیں سے کوئی خوشی کی خبر آئی؟ صحافت مگر وحشی صفت پیشہ ہے۔ اساتذہ نے خبر کی تعریف یہ باندھی کہ اس میں کچھ نحوست، ملال یا کم از کم خرق عادت پہلو پایا جائے۔ بزرگوں کا احترام بر چشم ما لیکن بندہ تہی کیسہ آج اچھی خبروں کا پشتارہ لایا ہے۔ نوع انسانی نے زبان ایجاد کی تو اس کی ابتدائی شکل گیت تھا۔ آپ چاہیں تو صوت کے اتار چڑھائو کو عربی عروض کا پابند کر لیں۔ آپ کا من چاہے تو تاشے نفیری کے تال میل کو افریقی ڈھول کی چار تال میں بیان کریں، آپ کے گلے میں سرتی گیان کی روشنی اترتی ہے تو بارش کے قطروں جیسی جلترنگ کو ہندی پنگل کا روپ بخش دیں۔ تال، لے اور خامشی کا وقفہ، ان تین بنیادی اکائیوں سے اولین انسانی اظہار تشکیل پایا۔ اسی میں بہار رت کا طربیہ ہے اور اسی میں پت جھڑ کا حزنیہ۔
ذہن انسانی کے ارتقا کا نظم سے اگلا درجہ نثر ہے۔ اس میں بھی مدتوں انسان حکایت اور داستان میں اپنا گیان بیان کرتے رہے۔ منطق اور تصدیق کے اصولوں پر مباحث کا بیان تو نشاۃ ثانیہ کی دین ہے۔ اردو زبان بھی انہی مرحلوں سے گزری۔ ابتدا میں نظم کا گائیکی سے فراق ہوا۔ پھر قصیدے کا ایک ترکیبی جزو غزل اردو میں ایک باقاعدہ صنف قرار پایا۔ کرنل ہالرائیڈ کی انجمن پنجاب ابھی غزل کو جدید نظم کا وکٹورین سانچہ عطا کرنے کی کوشش میں تھی کہ دلی کے کوچہ بلی ماراں کی گلی قاسم جان کے اسداللہ غالب نے ’عود ہندی‘ اور ’اردوئے معلی‘ کے نام سے دو ایسی تصانیف دان کیں کہ اردو کی غیر افسانوی نثر نے پہلا قدم ہی اوج کمال پر رکھا۔کسی کو محمد حسین آزاد کی ’آب حیات‘ کی نثر کا درجہ جاننا ہو تو یلدرم کے استثنیٰ کے ساتھ ابتدائی بیسویں صدی کی غیر افسانوی نثر دیکھ لے۔سوئے ادب مقصود نہیں لیکن حسن نظامی اور محمد علی ردولوی سے بولی ٹھولی نکال دیں تو باقی کیا بچے گا۔ تقسیم کے آس پاس البتہ چراغ حسن حسرت، رشید احمد صدیقی، حمید احمد خان، محمد حسن عسکری، فراق گورکھ پوری، ملا واحدی، مولوی عبدالحق اور ایس ایم اکرم نے غیر افسانوی نثر کو غیر معمولی ترقی دی۔ اس کے بعد کوئی چار عشرے اردو ادب افسانے اور نظم کے بل ہی پر آگے بڑھا۔ ستر کی دہائی میں اردو کی غیر افسانوی نثر نے یکایک کروٹ لی۔ مختار مسعود، دائود رہبر، ڈاکٹر آفتاب احمد اور رضا علی عابدی نے غیر افسانوی اردو نثر کو نئے امکانات بخشے۔ کرنل محمد خان، ابن انشا اور مشتاق احمد یوسفی اپنی بے بدل خوبیوں کے باوجود غیر افسانوی نثر کے زمرے میں نہیں آتے۔ طالب علم سمجھتا تھا کہ مختار مسعود کی کاشی کاری، عابدی صاحب کی سلاست ، ڈاکٹر آفتاب کی پرکاری اور دائود رہبر کی موج خرام یار کے بعد اردو کی غیر افسانوی نثر کیونکر آگے بڑھے گی۔ لیکن ’ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا‘۔
خبر یہ ہے کہ اردو کی غیر افسانوی نثر میں چار نئے عناصر اربعہ نمودار ہوئے ہیں۔ تقدیمی ترتیب میں عرض کرتا ہوں۔ محمد حسن معراج نے ’ریل کی سیٹی‘ میں تاریخ، مشاہدے اور رسیلی لغت سے ایسی آئینہ بندی کی ہے کہ اگرچہ نام خدا چالیس کے پیٹے میں ہیں لیکن حسن معراج نے اردونثر میں مزید کچھ نہ بھی لکھا تو ’ریل کی سیٹی‘ مدتوں سنائی دیتی رہے گی۔ عرفان جاوید کا طرز احساس انگریزی اور اردو کا دوآتشہ امتزاج ہے۔ چراغ حسن حسرت کی ’مردم دیدہ‘تو ہمارا کلاسیک ورثہ ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ عرفان جاوید نے مردم شناسی پر خاص توجہ دی ہے۔ ’دروازے‘ میں مصور تصدق سہیل کا خاکہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ عرفان جاوید کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ طالب علم کی رائے ہے کہ ان کی کتاب ’عجائب خانہ‘ جدید اردو نثر کے بہترین نمونوں میں شمار کی جائے گی۔ عرفان جاوید کی دیگر تصانیف بھی خاصے کی چیز ہیں لیکن ہموار رفتار سے علم، مشاہدے اور بصیرت کا جو معیار عرفان جاوید نے ’عجائب خانہ‘ میں قائم کیا ہے شاید وہ خود بھی اس سے بہتر تصنیف پیش نہ کر سکیں۔ شاہد صدیقی پروفیسر بھی ہیں اور ڈاکٹر بھی لیکن جیسے غالب صاحب کہنا روایت کے منافی ہے ٹھیک اسی طرح شاہد صدیقی کو پروفیسر یا ڈاکٹر کہنا گستاخی معلوم ہوتا ہے۔ شاہد صاحب تعلیم کے موضوع پر انگریزی زبان میں وقیع تصانیف کے خالق ہیں۔ کوئی دس برس پہلے شاہد صاحب نے اردو پر توجہ کی اور اس نگہ نیم باز پر اردو زبان ان کی شکر گزار رہے گی۔ شاہد صدیقی کالم کے نام پر نثرپارے تخلیق کرتے ہیں۔ شاہد صاحب کے موضوعات آثار قدیمہ سے فلم اور ادب سے نفسیات تک پھیلے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے ’پوٹھوہار۔ خطہ دلربا‘ کے نام سے شمالی پنجاب کے اس بارانی منطقے میں جو پھول بوٹے اور جواہر ریزے دریافت کئے ہیں، پاکستان کے مخصوص تاریخی تناظر میں اہل پوٹھوہار سے محبت کا اس سے بہتر حق ادا نہیں ہو سکتا تھا۔ اور اب ذکر مشفق مہربان اور استاد گرامی ظفر محمود کا۔ ظفر صاحب کا پہلا ناول ’23دن‘ کوئی تیس برس پہلے شائع ہوا۔ پھر افسانوں کا مجموعہ ’دائروں کے درمیان‘ شائع ہوا۔ ’فرار‘ کے عنوان سے ایک دلچسپ ناول بھی تحریر کیا لیکن میں ظفر صاحب کے کالم کا قتیل ہوں۔ ظفر محمود کالم نگاری کے معبد میں کار سرکار کے تجربات کی جوتیاں اتار کر داخل ہوتے ہیں۔ مشاہدے اور علم کی کمی نہیں ۔ نثر کا ریا ض سپتک کے سب اتار چڑھائو جانتا ہے۔ ظفر محمود کا ایک بھی کالم ایسا نہیں جسے وقت کی دیمک کا خوف ہو۔ ان کی ایک سطر ایسی نہیں جس سے تازہ کاری کی البیلی نار ایسی سگندھ نہ اٹھتی ہو۔ ابن انشانے ’استاد مرحوم‘ میں ایک طنزیہ جملہ کمال کا لکھا۔ ’اپنے بعد میں نے انہیں ہی پایا‘۔ میں ظفر محمود صاحب کے کالم پڑھ کر سر دھنتا ہوں اور کہتا ہوں کہ مجھ سے بہتر لکھنے والے تو بہت ہونگے لیکن ظفر صاحب سے بہتر اردو کالم کا حق ادا کرنے والا اس زمانے میں دوسرا نہیں دیکھا۔ اور واللّٰہ اس رائے میں کوئی انکسار نہیں۔