وہ مجھے نفرت اور حقارت کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ پاکستانی ہونے کی وجہ سے مجھے پہلی فائٹ میں کوئی اہمیت نہ دی گئی۔ دنیا کے بہترین کوچ کہتے تھے کہ یہ لڑکا ایک بھی فائٹ نہیں جیت سکتا۔ یہ دنیا کا مشکل ترین ، سخت جان کھیل ہے۔ یہ نوجوان بچہ ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کی مہنگی ترین ٹریننگ لینے والے اتنے بڑے فائٹر ہیں۔ یہ ان کا کیسے مقابلہ کرے گا؟ میں نے دو سال تک دن رات سخت محنت کی، صرف ایک ہی جذبہ تھا کہ پاکستان کا نام اور قومی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنا ہے۔ مقابلے کی تیاری کیلئے کئی ہفتوں تک سو نہیں سکا۔صرف ایک مقصد تھا کہ ہر صورت جیتنا ہے۔ پاکستان کیلئے، اپنے عوام کیلئے۔ میری کامیابی کے پیچھے ایمان و یقین کی طاقت، پاکستانی قوم اور والدین کی دعائیں ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ دنیا میں پاکستانیوں سے زیادہ کوئی ٹیلنٹڈ نہیں۔
بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں اسپورٹس کا کوئی کلچر نہیں۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔میں آپ کے سامنے زندہ مثال ہوں۔ بلوچستان کی پتھریلی چٹانوں کے درمیان پلا بڑھا، خاندانی پس منظر میں صرف غربت ہی غربت دیکھی۔ مقامی اکیڈمیوں میں کومبیٹ کراٹے کی تربیت حاصل کی۔ لوگ میرا کھیل دیکھتے تو داد دیتے۔ صوبائی سے قومی سطح تک بے شمار کامیابیاں حاصل کیں پھر بھی کسی نے نوٹس نہیں لیا، سرپرستی کرنا تو بہت دُور کی بات ہے۔ ذاتی خرچ اور سابق وفاقی وزیر سردار یارمحمد رند کی سرپرستی کے باعث تین ماہ تک امریکہ میں ٹریننگ حاصل کی۔ میرا اور کوئی اسپانسر نہیں تھا۔ امریکہ جانے کے لئے ٹکٹ تک کے پیسے نہیں تھے۔ اس کے باوجود اللہ نے مجھے پاکستان کا نام روشن کرنے کا موقع عطا کیا۔ کومبیٹ کراٹے ورلڈ چیمپئن شاہ زیب رند ورلڈ ٹائٹل جیتنے کے بعد جب اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترے تو کوئی حکومتی عہدے دار بینڈ باجے کے ساتھ ان کا استقبال کرنے نہیں آیا۔ مبارک باد کے چند پیغامات کے سوا اسے کسی انعام واکرام سے نوازا نہیںگیا۔ صرف سردار یار محمد رند نے ذاتی حیثیت میں ایک مربع زرعی اراضی شاہ زیب کے نام کرنے کا اعلان کیا۔
سوشل میڈیا پر شاہ زیب کے مداح وفاقی و صوبائی حکومتوں پرطنزو تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں۔ فرق صاف ظاہر ہے کہ نئے قومی ہیرو کو ارشد ندیم جیسی عزت ملی نہ اس پر انعامات، اعزازات اور نوازشات کی کوئی برسات ہوئی۔ شاہ زیب بھی ہم سے ناراض ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے کسی سے کیا مانگا؟ صرف عزت، مارشل آرٹ کا فن اپنے بل بوتے پر سیکھا۔ کوئی ٹریننگ اسٹاف تھا نہ بین الاقوامی کوچ۔ اس کے باوجود میں یہ ٹائٹل جیت گیا۔ میں بڑے بڑے انعامات کیلئے نہیں پاکستانی قوم کیلئے لڑا ہوں، فائنل میچ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھے لگا کہ میں سب کچھ ہار گیا۔مگر میں نے رِنگ میں گرنے کے باوجود آخری دم تک لڑنے مرنے کو ترجیح دی۔ میرے مخالف نے ایک ایسا زور دار پنچ(مکا) میرے سر پر مارا کہ میں نیم بے ہوشی کی حالت میں چلا گیا۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ دل و دماغ میں ایک ہی بات سمائی ہوئی تھی میں چوبیس کروڑ پاکستانیوں کی پہچان ہوں۔ میرے لوگ ورلڈ ٹائٹل کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ میں ہار گیا تو قوم کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ میرا مخالف مجھ پر برتری لے گیا تھا مگر اللّٰہ نے مجھے طاقت دی کہ شاہ زیب تم ہار نہیں سکتے۔ تم پاکستان اور بلوچ عوام کی آخری امید ہو۔ اللّٰہ پاک کا کرم ہوگیا ، میں تیسرے راؤنڈ میں فاتح بن گیا۔ میں نے جدوجہد کی، زندگی و موت کے درمیان یہ ورلڈ ٹائٹل جیت کرلایا ہوں جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ کوئی اور ملک ہوتا تو کئی ہفتوں تک ورلڈ ٹائٹل جیتنے کی خوشی میں جشن منایا جاتا۔ یورپی ممالک یہ ٹائٹل جیتنے کیلئے اربوں روپے کھلاڑیوں پر خرچ کرتے ہیں۔ کئی کئی سال تک ٹریننگ دی جاتی ہے۔ میں متوسط خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں برملا کہتا ہوں کہ میں کسی سے کچھ نہیں مانگتا، صرف اتنا تو کر دیں کہ بلوچستان کے نوجوانوں کی ہر میدان میںپروفیشنل ٹریننگ کیلئے سینٹرز قائم کردیں ۔
یہ ہیں میرے نئے قومی ہیرو شاہ زیب رند کے خیالات۔ایک طرف شاہزیب ہے دوسری طرف ارشد ندیم ۔ دونوں نے کھیل کے اپنے اپنے میدانوں میں عالمی ٹائٹل حاصل کئے۔ ایک پر حکومتی نوازشات کی اتنی بارش کہ طوفان آگیا اور دوسرا حوصلہ افزائی کے ایک قطرے کو بھی ترس رہاہے۔ سوشل میڈیا پر شاہ زیب کی کامیابی کو پنجابی، بلوچی رنگ دے کر نفرت پھیلانے میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی کومبیٹ کراٹے کے کھیل سے بالکل واقف نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز دیکھنے سے شاہ زیب کی جسمانی طاقت ، فولادی مکے کے وار اور پاؤں کی برقی حرکات سے یہ محسوس ہوا کہ جیسے رنگ میں مایہ ناز باکسر محمد علی اور مائیک ٹائسن کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ شاہ زیب کی حوصلہ افزائی میں کوتاہی کی ذمہ دار سب سے پہلے بلوچستان حکومت ہے۔جس نے اس نگینے کو تراش کر بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ مین اسٹریم میڈیا بھی برابر کا قصور وار ہے کہ کم از کم فائنل میچ براہ راست نشر کیا جانا چاہئے تھا۔وقت ہاتھ سے نکل گیا، پنجاب سے شکووں اور نفرت کا خاتمہ صرف ایک شخصیت کرسکتی ہے وہ ہیں مریم نواز! وہ نئے قومی ہیرو کو پنجاب بلا کر عزت و انعام سے نوازیں، ان کے اعزا ز میں خصوصی تقریبات کا اہتمام کریں۔ مریم نواز نفرتیں کم کرنے، بین الصوبائی بھائی چارے کو فروغ دینے میں جو کردا ر ادا کرسکتی ہیں وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں، پھر تاخیرکیوں؟