اس چھوٹی سی ریاست کے معاملات ہمیشہ ایسے نہیں تھے، ماضی میں بھی یہاں شورش رہتی تھی مگر چند ماہ کیلئے، پھر حالات خودبخود معمول پر آجاتے تھے، تاہم اب کچھ وقت سے یہ بات محسوس کی جا رہی تھی کہ بادشاہ کا مزاج تبدیل ہو رہا ہے، جن باتوں کو وہ پہلے دَرخورِ اعتِنا نہیں سمجھتا تھا اب اُن پر وہ جھنجھلا جاتا ہے۔ بادشاہ کے مزاج کی اِس تبدیلی کو مملکت کے جہاندیدہ مشیروں نے بہت پہلے بھانپ لیا تھا چنانچہ انہوں نے خود کو بادشاہ کی طَبع کے مطابق ڈھال لیا مگر مزاج کی یہ تپش اب عوام تک بھی پہنچ رہی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ جوں جوں بادشاہ کی عمر بڑھ رہی ہے توں توں اُس میں برداشت کا مادہ کم ہو رہا ہے، ظاہر ہے کہ عام آدمی تو بادشاہ سے براہ راست ملاقات نہیں کر پاتا تھا اِس لیے وہ اُس کی متلون مزاجی کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا، لیکن اِس کے باوجود بادشاہ کی جھنجھلاتی طبیعت اب ہر کسی کی نوکِ زبان پر تھی۔ کچھ عرصہ پہلے جب قومی شاہراہ پر ڈکیتی کی واردات ہوئی تو بادشاہ نے حکمنامہ جاری کیا کہ آئندہ کوئی بھی شخص نصف شب کے بعد قومی شاہراہ سے سفر نہیں کرے گا۔ مشیر برائے عوامی امور کا کہنا تھا کہ یہ حکمنامہ شہریوں کے مفاد میں جاری کیا گیا ہے کیونکہ اُس شاہراہ پر اکثر و بیشتر رات گئے وارداتیں ہوتی تھیں، چنانچہ شاہراہ کے دونوں اطراف میں چوکس پہرے دار تعینات کر دیے گئے۔ چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ بادشاہ نے اگلا حکمنامہ جاری کر دیا، اِس حکم کے تحت شہریوں پر لازم کیا گیا کہ وہ ریاست مخالف عناصر پر نظر رکھیں اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کی صورت میں فوراً متعلقہ کوتوالی کو مطلع کریں۔ اِس حکمنامے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس کی مخالفت کی جا سکے، آس پاس کی ریاستیں بھی اِس قسم کے حکمنامے جاری کرتی رہتی تھیں، مگر اِس ریاست کے حالات اب کچھ یوں بنتے جا رہے تھے کہ بعض لوگوں کو یہ حکمنامہ معنی خیز لگا۔ لوگوں نے بادشاہ کی ڈھلتی عمر کے بارے میں اشاروں کنایوں میں باتیں کرنا شروع کر دیں، وہ نوجوان جو بادشاہ کی عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے براہ راست متاثر ہوئے تھے، نسبتاً زیادہ کھلے انداز میں تنقید کرنے لگے۔
شروع شروع میں یہ تنقید بادشاہ تک نہیں پہنچتی تھی، اُس کے مشیر بادشاہ تک صرف وہ خبریں پہنچاتے تھے جنہیں سُن کر اُس کی طبیعت بشاش رہے، شاہی طبیب نے بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو، بادشاہ کو غیر ضروری اور منفی باتوں سے دور رکھا جائے۔ اِس حکمت نے کچھ عرصے تک تو کام کیا مگر ایک روز کسی نے بادشاہ کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ ریاست پر اُس کی گرفت کمزور ہو رہی ہے اور لوگ اُس کے حکمناموں کو ہوا میں اُڑا رہے ہیں۔ حاکمِ وقت چاہے کتنا ہی درد مند دل کیوں نہ رکھتا ہو، اپنی حکم عدولی برداشت نہیں کر سکتا، اِس ریاست پر بادشاہ کی حکومت کئی دہائیوں سے قائم تھی، اِن تمام برسوں میں ایک آدھ مرتبہ پہلے بھی ایسا ہوا تھا کہ لوگ باغیانہ پن پر اتر آئے تھے مگر اُس وقت بادشاہ نے کمال دانشمندی سے باغی گروہ کے مخالفین کو اپنے ساتھ ملایا اور اُس گروہ کو شرپسند قرار دے کر کچل ڈالا۔ اب صورحال چونکہ مختلف تھی، سو، اپنے مشیروں سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد بادشاہ نے ایک نیا حکمنامہ جاری کیا کہ کسی بھی محفل میں ریاست یا سیاست سے متعلقہ امور زیر بحث نہیں لائے جائیں گے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ کچھ دنوں تک اِس حکمنامے کی بازگشت سنائی دیتی رہی مگر آہستہ آہستہ لوگوں نے اِس حکمنامے سے بچ نکلنے کے طریقے بھی تلاش کر لیے، کسی سرکاری تقریب یا محفل میں وہ براہ راست ریاست کے امور سے متعلق بات نہیں کرتے تھے مگر انہوں نے کچھ ایسے فقرے گھڑ لیے جن سے حکومت کی سُبکی کا پہلو نکلتا تھا، وہ بے تکان ایک دوسرے پر یہ جملے اچھالتے اور قہقہے لگا کر سرکاری اہلکاروں کو زِچ کرتے۔ نجی محفلوں میں تو اِس تکلف کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی، وہاں کھلم کھلا انداز میں گفتگو ہوتی اور بادشاہ کے حکمناموں کا ٹھٹھا اڑایا جاتا۔
یہ صورتحال کچھ عرصے تک ایسے ہی جاری رہی اور پھر بادشاہ نے اگلا حکمنامہ جاری کیا، اِس مرتبہ ریاست پر کی جانے والی ہر قسم کی تنقید پر پابندی لگا دی گئی، حکمنامے میں یہ بھی لکھا گیا کہ اِس بات کا فیصلہ متعلقہ کوتوال کرے گا کہ ریاست کے امور پر بالواسطہ یا بلا واسطہ ہونے والی تنقید تعمیری ہے یا تخریبی۔ منفی اور تخریبی ذہین سے کی جانے والی تنقید پر چھ ماہ قید کی سزا بھی حکمنامے میں لکھ دی گئی۔ اِس حکمنامے کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کو سزائیں سنائی گئیں، تاہم اِس کے باوجود لوگوں کی بے چینی کم نہ ہوئی، ہر گزرتے دن کے ساتھ اِن حکمناموں کی ساکھ کم ہوتی گئی، گو کہ سرکاری اہلکاروں کے اختیارات بڑھ گئے مگر اُن کے پاس لامحدود وسائل نہیں تھے کہ وہ بادشاہ کے ہر حکمنامے کی مِن و عن تعمیل کروا سکتے، اِن اہلکاروں میں بہت سے ایسے بھی تھے جن کی اپنی نیت کھوٹی تھی، کچھ تو چاہتے ہی نہیں تھے کہ بادشاہ کے احکامات پر عمل ہو جبکہ زیادہ تر وہ تھے جو اِن احکامات کی آڑ میں اپنا الّو سیدھا کر رہے تھے۔ اسی دوران بادشاہ نے ایک اور حکمنامہ جاری کر دیا جس میں یہ پابندی عائد کر دی گئی کہ کوئی بھی شخص، ریاست یا اُس کے اداروں یا اُس سے وابستہ اہلکاروں کو کسی بھی قسم کی تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکے گا۔ حالات مگر جوں کے توں رہے۔
ایسے میں کسی نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اِس سے پہلے کہ حالات مزید بگڑیں اور قابو سے باہر ہو جائیں، بہتر ہو گا کہ شرپسندوں کے مخالفین کو اپنا ہمنوا بنایا جائے اور ماضی کی طرح شرپسندوں کو باغی اور غدار قرار دے کر سختی سے کچل دیا جائے۔ بادشاہ کو یہ تجویز بہت پسند آئی، اُس نے ماضی میں یہ حکمت عملی نہایت کامیابی سے اپنائی تھی جس پر وہ بہت نازاں بھی تھا۔ قریب تھا کہ مجوزہ حکمت عملی پر اتفاق کر لیا جاتا، ایک مشیر نے بادشاہ کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کی حکمت عملی موجودہ حالات میں قابل عمل نہیں۔ بادشاہ نے ناگواری سے اُس مشیرکی طرف دیکھا، چونکہ یہ اُس کے والد کے دور سے کابینہ کا حصہ تھا اِس لیے بادشاہ اُس کی کڑوی سے کڑوی بات کا بھی برا نہیں مناتا تھا۔ مشیر نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’ماضی میں یہ حکمت عملی اِس لیے کامیاب رہی کہ کسی کو ریاست کا غدار یا باغی قرار دینے کی طاقت صرف آپ کے پاس تھی مگر اب...مشیر نے توقف کیا۔ ’’اب کیا ہوا ہے؟‘‘ بادشاہ نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے پوچھا۔ ’’بد قسمتی سے اب یہ اختیار آپ کے پاس نہیں رہا، جنہیں ہم شرپسند سمجھ رہے ہیں ہم خود انہیں یہ اختیار انہیں تفویض کر چکے ہیں، اور اسی اختیار کو استعمال کرکے اب وہ اپنے مخالفین کو باغی اور غدار قرار دے رہے ہیں، غلطی ہم سے ہوئی ہے، بادشاہ سلامت۔‘‘ محفل میں سناٹا چھا گیا۔