وطن عزیز اس وقت ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے،سیاسی عدم استحکام، حکومت اور اپوزیشن میں بڑھتی ہوئی رسہ کشی، اسلام آباد کی سڑکوں پر فوج کا گشت ،مہنگائی اور گرانی کا نہ رکنے والا سلسلہ اپنے عروج پر ہے۔ایسے میں اسرائیل کی جانب سے فلسطین اور لبنان کے ساتھ دیگر پڑوسی اسلامی ملکوں کے خلاف جارحیت نے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔دنیا اس وقت ایک نئی صلیبی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے،فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کےمظالم کے خلاف کئی عشروں سے مؤثر آواز حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی اسرائیلی حملے میں شہادت بلاشبہ پوری مسلم دنیا کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔صہیونی ریاست کے چھوٹے سے وجود کے مقابلے میں قدرتی وسائل سے مالا مال 57 مسلم ملکوںکے حکمراں زبانی جمع خرچ کے سوا مظلوم فلسطینی مسلمانوں کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکے ،جو کسی المیے سے کم نہیں۔ان حالات میں اگر ہم پاکستان کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو ایک طرف سیاسی بے چینی،دوسری جانب سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان جاری لڑائی زبان زد عام ہے، ہمارے حکمراں آئی ایم ایف سے قرض ملنے پر خوشی سے نہال ہیں مگر تمام تر عالمی امداد کے باوجود عوام بے حال ہیں،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے رواں ماہ ملکی سیاست کیلئے بہت اہم ہے، آئینی ترامیم میں حکومت کی ناکامی اس کیلئےنئے مسائل کو جنم دے گی،سپریم کورٹ کا آئین کے آرٹیکل63اے سے متعلق کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دینا مثبت اقدام ہے،جس سے آئینی ترامیم کی منظوری میں مدد ملے گی۔ نو مئی کے واقعے کے بعد جس طرح ملک میں پی ٹی آئی کی جانب سے افراتفری پھیلائی جارہی ہے اس سے ملکی معاشی صورت حال کو سنبھلنےکا موقع نہیں مل رہا ، آئے دن احتجاج نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ختم کر دیا ہے، اس وقت جبکہ ملک میں معاشی صورت حال میں بہتری آنے لگی ہے اس جماعت نے ملکی سیاست میں جو انداز اختیار کیا ہوا ہے وہ درست نہیں۔
ماہ اکتوبر جہاں ملکی سیاست میں ہلچل مچارہا ہے، وہیں اس ماہ ملک کے دو قومی رہنمائوں کی برسی بھی منائی جائے گی، جوبانی پاکستان قائد اعظم کے قریبی اور بااعتماد ساتھی تھے،شہید ملت لیاقت علی خان تحریک پاکستان کے ایک نڈر مجاہد، پرجوش رہنما اور قائد اعظم ؒ کے معتمد خاص، دست راست اور پوری قوم کے ہر دلعزیز قائد تھے، قوم نے ان کی لازوال خدمات کے اعتراف میں انہیں قائد ملت کے نام سے پکارا، ملک دشمن عناصر نے 16 اکتوبر 1951ء کو انہیں اپنے ناپاک عزائم کا نشانہ بنا کر موت کے منہ میں دھکیل دیا۔غیر منقسم ہندوستان کے مسلم لیگی وزیرِ خزانہ لیاقت علی خان نے 28 فروری 1947ء کو بجٹ پیش کر کے غلام ہندوستان کی استحصالی اور طبقاتی تقسیم پر مبنی معاشی زندگی میں ارتعاش پیدا کر دیا تھا، تاریخ میں اس بجٹ کو غریبوں کے بجٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان کی تمام پالیسیوں کا رخ امیروں سے دولت لے کر غریبوں کی طرف منتقل کرنا تھا۔ ہمیں آج بھی اسی قسم کے لیڈر کی ضرورت ہے،22 اکتوبر 1981کو قائد اعظم کے دیرینہ ساتھی اور تحریک پاکستان کے صفِ اول کے عظیم رہنما خان عبدالقیوم خان اس دنیا سے رخصت ہوئے،جنہوں نےقائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں آزاد وطن کے حصول کیلئے اپنی زندگی وقف کر دی تھی اور دن رات مسلمانوں کو متحد کرنے اور انہیں تحریک پاکستان کی جدوجہد میں عملی طور پر شامل کرنے کیلئے بڑی تندہی اور سرگرمی سے کام کیا۔ یہ کتنے دکھ، تکلیف اور افسوس کی بات ہے کہ ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے رہنمائوں، شہداء اور غازیوں کی بھاری قربانیوں اور لازوال جدوجہد کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ان رہنمائوں کے بارے میں ہمارے نوجوانوں کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ خان عبدالقیوم خان ممتاز کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور برطانوی عہد کی ریاست چترال میں 1901ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ کالج پشاور اور پھر علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی۔انڈین نیشنل کانگریس سے اپنی سیاست کا آغاز کرنے والے عبدالقیوم خان نے اپنی ذہانت ، قابلیت اور خدا داد صلاحیتوں کی وجہ سے مختصر سی مدت میں کانگریس میں نمایاں مقام حاصل کیا اور 1937ء میں کانگریس کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ،قائد اعظم کی آواز پر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو ئے ،صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کو مضبوط اور متحرک کیا اوراس صوبے کو مملکت خداداد پاکستان میں شامل کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج ایک بار پھر اس صوبے کو جو اب کے پی کےہوگیا ہے، قیوم خان جیسے رہنما کی ضرورت ہے۔ افغان جنگ کے بعد وہاں کے شہریوں اور سیکورٹی اداروں نے جس طرح دہشت گردی، بم دھماکوں خود کش حملوں اور خونریزی کا سامنا اور مقابلہ کیا ہےوہ ان کی عظمت اور ملک سے محبت کی لازوال مثال ہے۔ ان کے اگر کچھ مطالبات ہیں تو انہیں دیکھنا ہوگا۔سلگتے بلوچستان میں بھی امن لانا ہوگا۔ سندھ اور کراچی کے مسائل کو بھی حل کرنا ہوگا۔پنجاب کی ترجیحات کو اہمیت دینا ہوگی۔یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے کہ ملک کے تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر اپنی ذمے داریاں نبھائیں، سب کو بڑھتی ہوئی بے چینی اور عدم استحکام کو ختم کرنےکیلئےسمجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا۔