• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دائروں میں سفر کرتی پاکستانی معیشت کے 75 سال

بلاشبہ، ملک میں معاشی ابتری عرصۂ دراز سے جاری ناقص پالیسیوں کا شاخسانہ ہے اور اس عرصے میں خود انحصاری کی پائیدار منصوبہ بندی کے بجائے بدعنوانی اور قرضوں پرانحصار کی تاریخ بھی کافی طویل ہے۔ اس دوران ہمارے معاشی منیجرز روایتی طریقے اختیار کرکے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور ان کے’’شارٹ کٹ‘‘ طریقوں میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوششوں سے زیادہ امداد اورنئے قرض کا حصول، پرانے قرضوں کی ری شیڈولنگ، عالمی مالیاتی اداروں، یعنی عالمی بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے مالی معاونت وغیرہ ہی شامل ہیں۔ 

حالاں کہ آئی ایم ایف اور تمام مالیاتی ادارے قرض حاصل کرنے والوں کے سامنے اپنی کڑی شرائط رکھتے ہیں، جن میں قرض (مع سود) کی وصولی یقینی بنانے کے لیے اخراجات میں کمی اورآمدنی میں اضافہ لازمی و بنیادی شرائط ہیں، جب کہ آمدنی میں اضافے کےلیے ٹیکس اور ٹیکس نیٹ میں اضافے کا مطالبہ اور اخراجات میں کمی کے لیے شفّافیت، کفایت شعاری اور دیگر شرائط کے ساتھ خصوصاً قومی اداروں کی نج کاری پربھی لازماً زور دیا جاتا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشی منیجرز عرصۂ درازسے آمدنی میں اضافے کےلیے کچھ نئے ذرائع آمدنی ڈھونڈنے کے بجائے حسبِ معمول ٹیکس نیٹ بڑھانے سے زیادہ پرانے ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس اور اخراجات میں کمی کے لیے کفایت شعاری نظرانداز کرکے اداروں کی نج کاری،رائٹ سائزنگ اور ڈاون سائزنگ ہی پر توجّہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ 

بعض معاشی ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں70ءکی دہائی تک جوسرکاری اثاثے بنائے گئے تھے، حکومتیں انھیں90ءکی دہائی سے فروخت کرکے کام چلارہی ہیں۔ پاکستان نے70ءکی دہائی تک اثاثے کیسے بنائے اور پھرتین دہائیوں سے زائد وقفے وقفے سے جاری اثاثوں کی نج کاری کا آغاز کیوں، کب اور کیسے ہوا، معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتّب ہوئے؟ذیل میں ایک جائزہ پیش ِ خدمت ہے۔

نج کاری یا پرائیویٹائزیشن سے مراد یہ ہے کہ کسی سرکاری ادارے یا صنعت کو فروخت کرکے نجی اداروں کی ملکیت میں دے دیا جائے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے نج کاری پالیسی کے تحت کئی ادارے، نجی اداروں کو فروخت کیے گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک کا سب سےاہم ذریعۂ آمدنی زراعت کا شعبہ تھا۔ صنعت اور دیگر کاروبار انتہائی پس ماندہ تھے۔ ملک کی 33ملین آبادی کا تقریباً85فی صد، یعنی 28ملین افراد کا ذریعۂ معاش زراعت پر مبنی تھا۔

بدقسمتی سے آزادی کے وقت برصغیرکے 1063صنعتی یونٹس میں سے پاکستان کو صرف 34صنعتی یونٹس ملے، جن میں ٹیکسٹائل، تمباکو، چینی، چاول، آٹا اور جننگ کی صنعتیں شامل تھیں۔ان میں کپڑے کے تین ملز اور شوگر کی پیداوار محض 13ہزار ٹن تھی، 50-1949ءتک مجموعی قومی پیداوار میں صنعت کا حصّہ صرف ساڑھے سات فی صد تھا، جس میں چھوٹی صنعتوں کا پانچ اور بڑی صنعتوں کا حصّہ دواعشاریہ پانچ فی صد تھا۔ نوزائیدہ ریاست وسائل کی قلّت کا شکارتھی، اس لیے نجی سرمایہ داروں اور غیرملکی اداروں کو ملک میں سرمایہ کاری کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔

ابتدائی دس سال ریاست، قرض اور امداد کی پالیسی سے آزاد تھی۔غربت کے باوجود معیشت کے تمام شعبوں کا سفر آگے کی طرف دھیرے دھیرےجاری رہا۔ پاکستان کے تمام پانچ سالہ منصوبوں میں صنعتی ترقی کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ پہلے پنج سالہ منصوبے 1955ء تا 60ء کے دوران 74کروڑ 20 لاکھ روپے اور 1965ء سے1970ء کےدوران 78کروڑ60لاکھ روپےسالانہ منصوبوں پر خرچ کیے گئے۔ 

تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایوب خان کے دورِ حکومت اکتوبر 1958ء سے مارچ 1969ء تک بہ آسانی ملنے والی بین الاقوامی امداد سے پاکستان میں تیزی سے متاثرکن صنعتی ترقی ہوئی۔ صنعتی بینک کے قرضوں سے نئے کارخانے کھلے، اکثر کمپنیز نےسالانہ منافعے کا اعلان کیا۔ یکم دسمبر1967ء کو سابق صدر ایوب خان نے اپنی نشری تقریر میں بتایا تھا کہ گزشتہ9سال میں ساڑھے سات ارب روپے کے قرض سے قومی آمدنی میں 15ارب روپے کااضافہ ہوا۔ 

تاہم، تصویر کا دوسرا رُخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی کے اس یادگار دَور میں مذکورہ آسودگی اورخوش حالی کے اثرات عوام اور مزدوروں پر نظر نہیں آرہے تھے، کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ آمدنی والوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق پیداہونے کی وجہ سے ’’بے مثال ترقی‘‘ کے اثرات اور ثمرات عوام تک نہ پہنچ سکے۔

جس کی بنیادی وجہ سرمایہ داروں کا مزدوروں کو کسی بھی منافعے میں شریک نہ کرنا تھا۔ 8دسمبر1967ء ایوب حکومت کے دوران قومی اسمبلی میں صحت کے پارلیمانی سیکریٹری، سردار فضل کریم نے منصوبہ بندی کمیشن کے تیسرے پنج سالہ منصوبے کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں صنعتی مزدور دنیا میں سب سے کم اجرت پاتے ہیں۔

جب کہ صورتِ حال یہ تھی 1960ء سے 1965ء کے دوران صنعتی شعبے نے 11اعشاریہ دوفی صد سالانہ کے حساب سے ترقی کی،لیکن 1967ء تک مزدوروں کی اجرت حقیقی معنوں میں کم ہوگئی تھی۔ ان حالات میں 22 دولت مند خاندانوں کا بہت شہرہ تھا۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے احساس نےسیاست پرنمایاں اثرات مرتب کیے۔

ایوب خان کے مستعفی ہونے کے بعد جنرل یحییٰ خان کے زیرصدارت ملکی تاریخ کے پہلے جماعتی انتخابات عمل میں آئے۔ انتخابات لڑنے والی جماعتیں نمایاں طبقاتی فرق اور احساسِ محرومی ختم کرنے کے وعدے اور دعووں کے ساتھ میدان میں اُتریں، لہٰذا 7دسمبر 1970ءکےانتخابات کے نتائج کے مطابق مشرقی پاکستان میں کام یاب ہونے والی سب سے بڑی جماعت ’’عوامی لیگ‘‘ اور مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت ’’پیپلزپارٹی‘‘ رہی۔

بدقسمتی سے یحییٰ خان اقتدار منتقل کرنے میں ناکام رہے اور 16دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکا کے نتیجے میں 20 دسمبر 1971ء کو باقی ماندہ پاکستان کی کمان پاکستان پیپلزپارٹی نے سنبھال لی۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ، ذوالفقار علی بھٹو نے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کو اپنی پارٹی کا منشور بنا کر انتخابات میں کام یابی حاصل کی تھی اورانہوں نے انتخابی مہم میں تمام نجی ملکیتی ادارے قومی تحویل میں لینے کا انقلابی نعرہ بھی لگایا تھا۔

سو، اپنے وعدوں کی تکمیل کے لیے2جنوری1972 ء کوریڈیو، ٹی وی پر ایک نشری تقریر میں دس قسم کی 20صنعتی اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے کا انقلابی اعلان کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’مذکورہ اقدام ان کے اس وعدے کے ایفا کی طرف پہلا قدم ہے، جس میں ملک میں اہم صنعتی اصلاحات کی جائیں گی۔ اس اقدام سے صنعتوں میں لگایا ہوا غیر ملکی سرمایہ اور غیر ملکی قرضے متاثر نہیں ہوں گے، عوام کو صنعتی ترقی کے حقیقی فوائد حاصل ہوں گے، کیوں کہ پرمٹ اور لائسنس کے نظام سے اب تک صرف چند خاندانوں ہی کو فائدہ پہنچا ہے۔‘‘ 

واضح رہے کہ اس اعلان کے بعد سرکاری تحویل میں لیے جانے والے اداروں میں اسٹیل کارپوریشن آف پاکستان لمیٹڈ، کراچی،حئی سنزاسٹیل مل، کراچی، علی آٹوموبائل، کراچی، وزیرعلی انجینئرنگ، کراچی، گندھارا انڈسٹریز، ہارون انڈسٹریز، کانڈا والا انڈسٹریز، اروکے کیمیکلز، انڈس کیمیکلز، ولیکا کیمیکلز، ولیکا سیمنٹ، کراچی گیس کمپنی، بیکو انڈسٹریز، لاہور، ایم کے فائونڈریز، لاہور، اتفاق فائونڈریز، لاہور، رانا ٹریکٹرز، یونائیٹڈ کیمیکلز، کوہِ نور ریان، پاکستان سیمنٹ اور اسماعیل سیمنٹ وغیرہ شامل تھے۔19مارچ 1972ء کو اگلے مرحلے میں39 ملکی اور4غیرملکی بیمہ کمپنیز کوقومی تحویل میں لے لیا گیا۔

ان کمپنیز میں ایسٹرن فیڈرل انشورنس، امریکن لائف، حبیب انشورنس، انڈس انشورنس، ماڈرن میوچل، سینٹرل لائف انشورنس،آئیڈیل لائف، پیرل انشورنس، ناوچ یونین، یونائیٹڈ انشورنس، کریسنٹ اسٹار، مرکنٹائل انشورنس، نیوجوبلی خیبرانشورنس، پریمیئرانشورنس، اسٹینڈرڈ انشورنس، آدم جی انشورنس، پروڈنشل انشورنس، نیشنل سیکیورٹی، اسٹرلنگ انشورنس، کرسچین میوچل، اورینٹل میوچل، ایسٹ ویسٹ میوچل، پاکستان جنرل انشورنس، کوآپریٹو انشورنس، انٹرنیشنل جوبلی انشورنس، پاکستان میوچل، یونیورسل لائف، لاہورگرانڈ میوچل لائف انشورنس، بنگال لائف اینڈ جنرل ایسٹ کوآپریٹو اور ایسٹرن انشورنس شامل تھیں۔2ستمبر1973ء کو بناسپتی گھی اور تیل تیار کرنے والے 26کارخانوں کو قومیالیا گیا۔ 

یکم جنوری1974ءکو حکومت نے مزید تین شعبوں کو قومی تحویل میں لینے کا اعلان کیا،جن میں 13بینکس سمیت جہاز رانی کی9 اور 2 پیٹرولیم کمپنیز شامل تھیں۔ اس کے بعد حکومت نے آئندہ انتخابات تک مزید کسی نئے ادارے کو قومی تحویل میں نہ لینے کا اعلان کیا۔ قومیائے جانے کی پالیسی سے ریاست کے وسائل میں بھرپور اضافہ ہوگیا اور وہ راتوں رات منافع بخش اداروں کی مالک بن گئی۔ اس کے ساتھ ہی اس کے اثرات بنیادی سطح تک نظرآنے لگے۔

1970ء تک پاکستان میں صرف دو طبقے امیر اور غریب موجود تھے۔ قومیائے جانے کی پالیسی سےجہاں غربت میں کمی اور نیا متوسّط طبقہ وجود میں آیا، وہیں ذخیرہ اندوزی اورازخود قیمتوں میں اضافہ کرنے والے گراں فروش مافیا سے بھی چھٹکارا مل گیا، جس کا شکار آج پاکستان کا ہر شہری ہے۔ تاہم، دوسری طرف اس پالیسی نے کاروباری طبقے کو بہت نقصان پہنچایا۔ نجی سرمایہ کاروں کااعتماد مجروح ہوا، تو اکثرسرمایہ داروں نے بیرونِ ملک رخ کرلیا اور باوجود حکومتی کوششوں کے نجی سطح پر بڑی سرمایہ کاری کا عمل رک گیا۔ 

پانچ جولائی1977ء کو پیپلزپارٹی کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی جنرل ضیاالحق کے زیرِقیادت حکومت نے قومیائے جانے کی پالیسی کو خیرباد کہہ دیا۔29جون1978ء کو جنرل ضیاالحق نے اپنی پہلی بجٹ تقریر میں برخاست حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’اندرونی طور پر ملک سنگین معاشی مسائل میں مبتلا ہے، خسارے کی سرمایہ کاری اور بیرونی امداد پر انحصار کی وجہ سے حکومت کسی صنعت کوقومی تحویل میں لینے کا ارادہ نہیں رکھتی، صنعت کاروں کا اعتماد بحال کرنے کےلیے عن قریب آئینی ترمیم کے ذریعے انھیں تحفّظ فراہم کیا جائے گا۔‘‘1978ء میں جنرل ضیاء کی حکومت میں سوائے ایک ادارہ پرانے مالکان کو واپس کرنے کے، مزید نج کاری نہیں کی گئی۔ 

قومیائے جانے کی پالیسی پر حکومتی عدم دل چسپی کے بعد سے اداروں میں گورننس کے مسائل سامنے آنے لگے۔ قومیائے گئے ادارے بدانتظامی کی نذر ہونے لگے، مارکیٹنگ کے شعبے پر توجّہ کے بجائے غیرپیداواری اخراجات میں اضافہ اور سرکاری وسائل کاغیر ضروری استعمال عام ہوگیا۔ ان صنعتوں میں عمومی طور پر ملازمین کے تین طبقات کام کرتے تھے، جو اعلیٰ انتظامیہ، انتظامیہ اور مزدوروں پر مشتمل تھے۔ 

اعلیٰ انتظامیہ میں زیادہ تر وائٹ کالر اور سفارشی بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والے مقررہونے لگے اور یہ تقرریاں عموماً خاندانی حیثیت اور سماجی تعلقات کی بنیاد پر ہوتیں کہ ملازمتوں کے مکمل تحفّظ کے ساتھ انہیں شان دار تن خواہیں اور مراعات بھی حاصل ہوتیں۔ جب کہ ذمّے داریوں کے تناظر میں اُن کا کام ’’پوسٹ آفس‘‘ سے زیادہ نہیں تھا۔ ان میں سے اکثریت کی توجّہ اداروں کو منافع بخش بنانے سے زیادہ اپنے مفادات کے تحفّظ پر تھی۔ سفارشی افسران اور کارکنوں کی اکثریت سرکاری ملازمت کا مطلب محض تن خواہ اور مراعات کا حصول ہی سمجھتی تھی، اسی وجہ سے اداروں کی کارکردگی پر سوالات اُٹھنے لگے، نتیجتاً دھیرے دھیرے چند ہی برسوں میں اکثر اداروں کے خسارے میں جانے کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔

1979ءمیں افغان جنگ میں پاکستان، امریکا اور مغرب کےلیے فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر اہم کردار اداکرنے لگا، تو جنگی حالات میں ملکی و غیرملکی سرمایہ کاری کا امکان محدود ہوگیا۔ حکومتی توجّہ پیداواری ترقی سے زیادہ قرضوں، گرانٹ اور امداد پر مرکوز ہوگئی، جب کہ اس دوران غیرملکی امداد، گرانٹس،قرضوں میں نرمی سمیت مشرقِ وسطیٰ اورمغرب سے غیرمشروط طور پر مالی سپورٹ بھی حاصل رہی۔ 

ڈالرز کی ریل پیل کے سبب بڑھتے تجارتی خسارے،قرضوں میں اضافے اور کم قومی پیداوار کو بُری طرح نظر انداز کیا گیا۔ اور پھر 1988ءکے اوائل میں افغان جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ معاشی مسائل، جو آسانی سے ملنے والے ڈالرز کے (بیرونی امداد کی صورت) سبب دبے ہوئے تھے، سراُٹھانے لگے۔ عالمی اداروں نے بھی مشروط امداد اور قرض کی ادائی پر زور دینا شروع کردیا، لہٰذا 26جون1988ءکو وزیرِاعظم محمد خان جونیجو حکومت کے وفاقی وزیرِخزانہ، ڈاکٹر محبوب الحق نے بجٹ تقریر میں مختلف سرکاری صنعتی یونٹس سے سرمایہ نکالنے کے عمل کے لیے اعلیٰ اختیاراتی ڈس انویسٹمنٹ اتھارٹی قائم کرنے کااعلان کردیا۔ 

اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’’اتھارٹی کو تین فہرستیں دی جائیں گی، اولاً چالیس قومیائے گئے ادارے اور بعض سرکاری اداروں کے حصص فروخت کیے جائیں گے اور پھر قومیائے گئے بینکس کے 22فی صد حصص فروخت کردیئے جائیں گے۔‘‘ تاہم بعدازاں، اس ضمن میں مزید کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی۔ گیارہ سال کے وقفے کے بعد نومبر1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی زیرِقیادت پی پی حکومت دوبارہ برسرِاقتدار آئی، توان کے سامنے بڑھتے قرضے، آئی ایم ایف معاہدہ اور خسارے میں چلنے والے اداروں کی نج کاری سرِفہرست تھی۔ 

تاہم، محض 18ماہ کے دورانیے کی اس حکومت میں اعلانات کے باوجود نج کاری کے حوالے سے کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہ ہوسکی۔ نومبر1990ء میں ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ کے پلیٹ فارم سے نوازشریف پہلی مرتبہ برسرِاقتدار آئے، تو انہوں نے 7نومبرکو قوم سے اپنے پہلے خطاب میں اعلان کیا کہ ’’آزادانہ صنعتی مقابلے میں سب سے بڑی رکاوٹ سرکاری شعبے کی صنعتیں ہیں، جو قومی وسائل پر بوجھ ہیں، قومی خزانے کو اربوں کے نقصان سے بچانے کے لیے سرکاری صنعتوں کو نجی شعبے میں منتقل کردیا جائے گا۔‘‘ اور پھر وفاقی کابینہ کے پہلے ہی اجلاس میں انہوں نے کئی اداروں کی نج کاری کا عندیہ بھی دے دیا۔ اس موقعے پر بتایا گیا کہ سرکاری تحویل میں دیئے جانے سے یہ ادارے قومی خزانے کو 2700کروڑسالانہ کا براہِ راست نقصان پہنچارہے ہیں۔

23 جنوری1991ءکو ضیاء دور میں طویل عرصے وفاقی وزیرپیداوارکے منصب پر فائز رہنے والے سینیٹر، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل سعید قادر کی سربراہی میں آٹھ رکنی پرائیویٹائزیشن کمیشن قائم کیا گیا۔ جس کا مقصد ملک میں بتدریج اقتصادی ترقی،صنعتی صلاحیت میں اضافہ اور آزاد معیشت کو رائج کرنا تھا۔ نیز، نج کاری کے ذریعے غیر منافع بخش اداروں کی فروخت سےحاصل شدہ 90فی صدرقم سے غیرملکی قرضوں کی ادائی اور دس فی صد رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرکے معیشت کودرست سمت پر لایا جانا تھا۔ 

اس کے تحت 2اپریل1991ءکو سرکاری ادارے، مسلم کمرشل بینک کو83کروڑ 88 لاکھ روپے میں فروخت کرکے نج کاری کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا۔ بعدازاں، پرائیوٹائزیشن کمیشن نے نج کاری کے لیے سفارشات پر مبنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ پہلے مرحلے میں132 سرکاری یونٹس میں سے101کو نجی تحویل میں دیا جائے گا، جن کے فروخت سے ڈھائی ہزار کروڑ روپے حاصل ہوں گے۔ اس ضمن میں کم و بیش دوکروڑ روپے سے میڈیا پر بڑے پیمانے پرتشہیر بھی کی گئی۔21اکتوبر1991ء کو پرائیوٹائزیشن کمیشن نے اسلام آباد میں سرکاری صنعتی اداروں کی گرانڈ سیل لگائی، جس میں اندرون و بیرونِ ملک سے بڑی تعداد میں تاجروں نے شرکت کی۔

اس موقعے پر پریس بریفنگ میں کمیشن کے چیئرمین سعید قادر نے89یونٹس کے لیے235درخواستوں کی وصولی کا بتایا۔ پرائیویٹائزشن کمیشن اور وزارتِ خزانہ کا نج کاری کے دوران بارہا یہ کہنا تھا کہ ادارے خسارے میں چل رہے ہیں،حکومت کے مطابق 101اداروں میں سے صرف11منافعے اور 19نفع و نقصان کی پوزیشن میں ہیں، باقی یونٹس کا خسارہ کروڑوں میں ہے۔ ان اطلاعات کے ساتھ ہی سرکاری اداروں کی باقاعدہ نج کاری کا آغاز ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ 

میاں محمد نواز شریف کے پہلے دَور حکومت میں انتہائی تیز رفتاری سے 67 اداروں کی نج کاری ہوئی۔ اس عرصے میں 6نومبر 1990ء سے 18جولائی 1993ء تک 502اعشاریہ ایک ملین ڈالرز میں دوبینکس اور 65 صنعتی یونٹس کی نج کاری کی گئی۔ یاد رہے، اُس زمانے میں ڈالر کی قدر 28 روپے تک تھی۔ میاں نوازشریف کی وزارتِ عظمیٰ کی دوسری مدّت میں، جو 17 فروری1997ءسے12اکتوبر1999ءتک رہی، اس مدّت میں ایک سو پچیس ملین ڈالرزمیں 10یونٹ فروخت ہوئے۔ ان کے اس دَور میں ڈالرکی قدر 41 روپے سے ساڑھے 54 روپے تک رہی تھی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور18نومبر1993ء سے 5نومبر 1996ء تک 1325اعشاریہ سات ملین ڈالرز میں 22یونٹس کی نج کاری ہوئی۔ اس دوران ڈالر کی قدر30روپے سے43روپے تک تھی۔جنرل پرویز مشرف حکومت کا دورانیہ 1999ءسے2008 ء تک رہا۔ 

اس دَور میں بھی افغان جنگ کے باعث امریکا اور مغرب کے لیے پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا،حسبِ معمول ڈالرز کی ریل پیل رہی، لیکن اس کے باوجود اس عرصے میں5706اعشاریہ ایک ملین ڈالرز میں 67یونٹ کی نج کاری کی گئی۔ ان کے دور ِحکومت میں ڈالر کی قدرساڑھے54روپے سے63روپے تک رہی۔ اس طرح ان تین حکومتوں میں 7658 اعشاریہ تین ملین ڈالرز میں165سرکاری یونٹس، نجی تحویل میں چلے گئے۔

مارچ2008 ءسےمارچ2013 ءتک پی پی حکومت میں کسی ادارے کی نج کاری نہیں ہوئی۔ جون2013ء سے مئی 2018ء تک نون لیگ کی حکومت کے پانچ سالہ دَورمیں چاراداروں کے شیئرز 170371ملین روپے میں فروخت ہوئے۔ اگست2018ء سے اپریل 2022ء تک تحریکِ انصاف کے تین سالہ دَور میں چھے سرکاری پراپرٹیز 141.43ملین روپے میں فروخت ہوئیں۔

بہرحال، 1991ءسےجاری33سالہ نج کاری پالیسی کے تحت چارمختلف حکومتوں میں، سوائے پیپلزپارٹی کی حکومت (2008ءسے2013ء)کے، سب نے کسی نہ کسی ادارے یا شے کی نج کاری کی۔ واضح رہے، سرکاری اثاثوں کی نج کاری کا بنیادی مقصد، ایک شفّاف پالیسی کے تحت اُنھیں مناسب قیمت پر فروخت کرکے سرکاری خزانے کو خسارے میں چلنے والے اداروں کے بوجھ سے نجات دلانا، نج کاری سے حاصل آمدنی کا غیرملکی قرضوں کی واپسی میں استعمال اورسرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرکے نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے۔ لیکن افسوس، حالات یہ ہیں کہ اس قدر منہگی مشقوں کے باوجود قومی خزانہ خالی ہے۔ 33سال سے جاری نج کاری کے عمل میں،170کے قریب ادارے فروخت کیے جانے کے بعد بھی ملکی معیشت مشکلات ہی میں گِھری نظر آتی ہے۔ 

غیرملکی قرض جو1991ء میں23ارب ڈالرز تھا، اب24ہزار ارب روپے سے زائد ہوگیا ہے اور مذکورہ اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مجموعی طور پرملکی معیشت اور عوام کی بہتری کے لیے شروع کیا گیا نج کاری پروگرام متنازع، غیرشفّاف، اقربا پروری کا ذریعہ اور گھاٹے کا سودا ہی ثابت ہوا۔ ہمیشہ خسارے میں چلنے والے اداروں سے زیادہ منافع بخش اداروں کی فروخت ہی پر زور رہا، جب کہ چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے سبب نج کاری کے بعد تقریباً 86 فی صد یونٹس بند ہوگئے۔

آزاد معیشت کا خواب تو خواب ہی رہا، البتہ مختلف اجارہ دارگروپس ضرور وجود میں آگئےاور آج تیل، چینی، سیمنٹ، ٹیلی کام، فرٹیلائزر غرض ہر اہم شے کی قیمتوں کا کنٹرول ان ہی گروپس کے ہاتھ میں ہے۔ سرکاری ریٹس کچھ بھی ہوں، عوام ان کی مقررکردہ قیمت دینے پر مجبور ہیں۔ نیز، اسی نج کاری سے تقریباً10دس لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہوئے۔ مطلب، پالیسی سازوں نے جن مسائل سے نکلنے کی امید پر نج کاری کا آغاز کیا تھا، وہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہوکرسامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔