• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! گزرے ویک اینڈ کے آخری تین دنوں میں جمعہ تا اتوار جو کچھ اسلام آباد میں ہوا اس نے ملک کے زد میں آئے معاشی و سیاسی و آئینی و عدالتی بحران کیساتھ ایک بڑے انتظامی بحران کو بھی مکمل بے نقاب کردیا۔ ایسا نہیں کہ 30ماہ سے جاری پاکستان کی بحرانی کیفیت میں ملک میں ہر سطح پر فیصلہ سازی اور اس پر عملدرآمد یا جمود کی بدتر شکل واضح نہیں تھی، جملہ چاروں متذکرہ بحرانوں کیساتھ انتظامی ڈھانچے کی خستہ حالی اور ورکنگ دونوں کی نشاندہی تو ہو رہی تھی۔ یہ جو اسٹیبلشمنٹ پر الزام ہوتا ہے اور کوئی غلط بھی نہیں یہ ہے تو مانی جانی تاریخی حقیقت، جسے خود اسٹیبلشمنٹ غوروخوض میں ڈالنے والی وضاحت و دلائل سے باجواز بناتی ہے لیکن ملک میں چار مارشل لائوں کا نفاذ ہی اس تلخ سچ کو مکمل ثابت کرتا ہے، الگ ہے کہ اسکا ذمہ دار سول حکومتوں کی بیڈ گورننس کو بتایا جاتا ہے لیکن اب تو جاری پرآشوب حالات حاضرہ میں تمام ہی ریاستی ادارے بشمول پارلیمان، عدلیہ، انتظامیہ (بیوروکریسی) حتیٰ کہ میڈیا بطور نان اسٹیٹ ایکٹر بھی اپنے اپنے آئینی و پیشہ ورانہ کردار سے ہٹ کر یا تو خود اپنے متعین فرائض کی ادائیگی میں روبہ زوال ہیں، اور اب انتہا پر یا یہ ایک دوسرے کے دائرہ ہائے کار میں مداخلت کرکے انتشار و نفاق اور مجموعی پسماندگی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ پارلیمان، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور انتظامیہ (افسر شاہی) اپنی بیڈگورننس میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی ڈگری کوبھی کراس کرگئے ہیں۔

واضح رہے متذکرہ ملکی صورتحال کی مختصر ترین منظر کشی اور کڑوے کسیلے تجزیے میں ابھی ریاست اور امور ریاست کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز عوام الناس، جو 8فروری کو اپنا اصل تشخص بطور ’’قوت اخوت عوام‘‘ ثابت کر چکے ہیں، کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔ اگرچہ نشاندہی کئے گئے متذکرہ بگڑے اسٹیک ہولڈرز میں پارلیمان شامل ہے جو عوام کی نمائندہ ہی ہوتی ہے، لیکن موجود پارلیمان عوام کے 8فروری کے فیصلے کے برعکس ووٹ کی بجائے کسی اور ہی طاقت سے وجود میں آئی ہے، پھر اسکا انداز کار منتخب اور عوام والا ہے ہی نہیں، یہ جس طرح پراسرار مسودہ قانون برائے عدالتی اصلاح عوام کو دکھائے بغیر دھڑلے سے ٹیلر میڈ ترامیم کے ارادے پورے کرنے پر تلی بیٹھی ہے اور اس نے اپوزیشن پر جو ظلم کیااسی ظلم و جبر کا مستحق 8فروری کے جرم میں عوام کو سمجھا جا رہا ہے۔ یوں اب حقیقی قوت اخوت عوام، اپوزیشن (جس نے عوامی فیصلے پر حکومت ہونا تھا) ہی ہے اور اسٹیٹس کو کی جماعتوں کے وہ معدودے چند باضمیر رہنما اور ہم خیال پوٹینشل وفا شعار جو عوام سے آن ملے ہیں، اب کل اپوزیشن ہے۔ وہی عوام کے اتحادی ہیں جو اتنے MASSIVE SCALE پر بیڈ گورننس کے کسی طور پر عوام سے دور ہونے پر تیار نہیں، یوں وہ عوام کیساتھ مل کر ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ ان سب کو کسی طور پرگوارا نہیں کہ47والی اتحادی و حکمران جماعتیں پارلیمان، منقسم عدلیہ کا پرو ایکسٹینشن فیکشن، انتظامیہ اور الیکشن کمیشن اپنے اتنے غیر آئینی و جمہوری انداز گورننس سے ملک و قوم، عوام کو تو مسلسل اور ایٹ لارج اور اب خود خواص کو بھی ناقابل تلافی خسارے کے غیرجمہوری ہتھکنڈوں، حربوں اور جرم ضعیفی کے مجرم بنیں۔ لیکن انکی نظام بد میں عدم شمولیت ہی تو کافی نہیں، 25 کروڑ عوام اور انکے ملک کو کیسے اور کیوں اتنی بیڈ گورننس کے سپرد کردیا جائے۔ اسکے نتائج چند وقتی کامیابیوں یا خطرناک خاموش نظر آتے سیاسی استحکام کے بعد نتائج ماضی قریب کی ملکی تاریخ میں بہتر نکلے نہ اب نکلیں گے۔ رہے گڈ گورننس لانے اور موجود کو بیڈ گورننس ثابت کرنے کے سیاسی دعوے دار تو اب پاکستان میں کوئی ایمان دار رہا ہے نہ غیر جانبدار،سب اپنی اپنی پوزیشن لے چکے۔ پھر کیا ملک کو ایسے ہی چلنے دیا جائے کہ جس کی لاٹھی اسکی بھینس، نہیں ایسا تو کسی صورت نہیں ہو سکتا کیوں؟ یوں کہ 30ماہ قبل عوام نے رجیم چینج پر اپنے کمال سیاسی شعور کا اظہار کرتے عمرانی دور کی بڑھتی مہنگائی اور کئی مایوسیوں کے باوجود خان کو سات خون معاف کرتے ’’گندی سیاست‘‘ کے ملک و سیاست چلانے کو یکسر مسترد کرد یا۔ رجیم چینج کی حقیقت کو مکمل عوام دانش سے سمجھے۔ انہوں نے بڑے ضمنی انتخابات اور پھر 8فروری کو نظام بد کو اپنے سکہ بند چیلنج اور فیصلے کی توثیق کی۔ طبقہ خواص اگر بیڈ گورننس کرکے خود بھی نہ سمجھ آ جانیوالے بڑے خسارے سے دوچار ہے تو عوام اس عذاب میں مزید کیوں آئیں ان کے ساتھ کیا کچھ برا نہیں ہوا اور اب جو ہو رہا ہے حکومتی دعوئوں کے بالکل خلاف اشیائے خور و نوش کی مسلسل مہنگائی، انکے مینڈیٹ پر ڈاکہ، اور اس پر سینہ زوری۔ پارلیمان جو خواص کے تحفظ اور انہیں سنجیدہ مقدمات سے نکالنے کی ٹیلر میڈ قانون سازی کرتی رہی۔ اب پھر کرنیوالی ہے جس طرح عدلیہ کو کچہریاں بنانے کا مسودہ قانون چھپا یا جا رہا ہے اور بیڈ گورننس کے حاملین سب ایک پیج پر ہیں اور محروم و مقہور لیکن اب مکمل باشعور و پرعزم قوت اخوت میں ڈھل گئے عوام مزاحمت پر اتر آئے ہیں ، ان کی طاقت، اہمیت، عزم آئینی و قانونی حیثیت کم ہے نہ اسٹیٹس کو کےمحافظین اپنی ماورا ئےآئین طاقت سے جتنے طاقت ور ہیں۔ خواص کو اپنے نہ نظر آنے والے خسارے کی سمجھ نہیں آ رہی تو رہبر و رہنما نواز شریف سے سمجھ لو جو عقلمندی سے وطن آکر بھی چپ ہیں۔ بڑا سوال یہ ہے کہ ہر دوجانب مکمل جمود طاری ہوگیا، قوت اخوت عوام اپنی پوزیشن پر اور تازہ دم کہ 45 والی حکومت لائو یا الیکشن دوبارہ کروائو اور موجود حکومت کہ:ہم مفاہمت اور عملیت کے علمبردار ہیں اور اس کی اپنی ہی تشریح میں ملک چلانا ہے، یہ بھی کہ ہم کو عوام اپنی طاقت دکھا رہے ہیں تو ہمیں حکومت کرنے دو، لیکن عوام بھی تو دکھا رہے ہیںکہ وہ اپنی مزاحمت اختلاف اور اسکے کھلے اظہار سے یہ بھی کہ گورننس کا پوسٹ مارٹم کرتے رہنا ہے اس سے باز نہیں آئیں گے،وہ بھی کوئی اتنے کمزور تو نہیں، اب انکے پاس شعور بھی ہے، ملک و قوم اور آئندہ نسل کی فکر فاقوں کیساتھ ساتھ جمہوریت کی بھی اور استقامت اور مزاحمت کا رول ماڈل بھی، خواہ جیل میں ہی۔ اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا۔فائر وال یقین جانیے بے کار۔ گویا دونوں طرف طاقت اور عملی حقائق موجود ہیں۔ ریاست سے ٹکراور عوام سے جان چھڑانا اور انہیں دبائے رکھنا ممکن نہیں تو قوم اور مملکت کدھر جائے؟(جاری ہے)۔

تازہ ترین