• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجوزہ آئینی ترمیم اور آئینی گفتگو پرہماری روایتی نعرہ بازی کی ٹائمنگ دیکھتے ہوئے ایک آئینی عدالت کے قیام کے قانونی فوائد کا قبل ازوقت جائزہ لینا یقیناً آسان ہے۔

ایسا ادارہ بلاشبہ پاکستان کے موجودہ جوڈیشل اداروں کے دیرینہ مسائل کو حل کرسکتا ہے ۔ ناقدین کے دعوے کے برعکس آئینی عدالت ریاست کے ایک ستون کے طور پر عدلیہ کی حیثیت کو تباہ نہیں کرے گی، بلکہ یہ اس کی حیثیت کو مزید تقویت دے گی، جیسا کہ دنیا کے کئی ایک عدالتی نظاموں میں ہوا ہے ۔ آئین کی تشریح ، جو کہ آئینی عدالت کا کام ہے ، قانون ساز اور ایگزیکٹو کے اختیارات کو حد سے تجاوز کرنے سے روکتی ہے اور اس عمل سے ہمیشہ عدلیہ مضبوط ہوتی ہے۔ لااینڈ جسٹس کمیشن پاکستان کی 2023کے دوسرے نصف کیلئے شائع کردہ جوڈیشل اعدادوشمار کی شش ماہی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں تقریباً چار لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد ساٹھ ہزار کے قریب ہے۔ ایک آزاد آئینی عدالت عدالتوں پر آنے والےآئینی معاملات کا بوجھ نمٹائے گی ۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ التوا کا بوجھ آئینی معاملات کی تعداد کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اس لیےہے کہ آئینی مسائل حل کرنے کیلئے بہت زیادہ وقت درکار ہوتا ہے ، اور ان میں بجا طور پر ترجیح کا پہلو غالب رہتا ہے۔ یہ معاملہ مزید پیچیدگی اختیار کر لیتا ہے جب ہر صوبائی ہائی کورٹ اپنے اپنے طور پر ایک آئینی ایشو کو دیکھتی ہے ۔ اس کا نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ ملک کی تمام اعلیٰ عدالتیں مختلف مقامات پر ایک ہی تنازع کو نمٹانے پر اپنا قیمتی وقت صرف کررہی ہوتی ہیں ، اور یہ بھی ہوسکتا ہے ، جیسا کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے ، مختلف عدالتیں مختلف نتیجے پر پہنچیں ۔

ان تمام نتائج کی ایک مرتبہ پھر سپریم کور ٹ میں جانچ ہوتی ہے ۔ اس دوران سول اور فوجداری مقدمات التوا کا شکار ہوجاتے ہیں جو ہزاروں افراد کی زندگیوں کو براہ راست متاثر کرتے ہیں ۔ اس سے عام سائلین مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ، انصاف کے عمل کو دھچکا لگتا ہے اورملک کے آئینی بندوبست کو زک پہنچتی ہے۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد اعلیٰ عدلیہ پر صوبوں اور وفاق کے اختیارات اور آئینی حدود کے تعین کا بے پناہ بوجھ پڑ گیا ہے ۔ ضروری ہے کہ آئین کے نفاذ اوراس کی شقوں کی وضاحت کو کسی الجھائو میں نہ رہنے دیا جائے اور ان مسائل کو آئین کی روح کے مطابق حل کیا جائے۔آئینی ماہرین پر مشتمل ایک آئینی عدالت آئینی معاملات پر فیصلہ سازی کے عمل میں بہتری لائے گی اور تمام صوبوں میں قانون کا نفاذ یکسانیت اوریقینی پن لائے گا۔ ریاست کا کوئی ستون آئین سے بالاتر نہیں ، اور تینوں ستونوں کو، اپنے اپنے دائرہ کار میں، آئین کی اسکیم کے ذریعے ظاہر کی گئی عوام کی مرضی کے تابع ہونا چاہیے۔ اگر ہماری عدلیہ کے نقائص کو دور کرنے کیلئے اس وقت آئینی عدالت کا قیام ضروری ہے تو یہ قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور پاکستان کے عوام کے مفاد میں ہونا چاہیے۔ یہ عام شہری ہے جسے آئین کے انعقاد اور عوامی اداروں کے اپنی حدود میں رہنے کا فائدہ ہوتا ہے اور یہی آئینی عدالت کے قیام کا مرکزی تصور ہے۔ آئینی عدالت کا قیام ایک اجنبی اور نیا تصور لگتا ہے ۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ یہ پاکستان پر اچانک زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ میثاق جمہوریت میں تجویز کے طور پر گزشتہ 18 سال سے جمہوری ایجنڈے پر موجود تھا۔ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ میثاق جمہوریت پر پاکستان کے دو مقبول ترین سیاسی رہنماؤں نے اپنی اپنی جماعتوں کی جانب سے آمرانہ حکمرانی کے خاتمے اور حقیقی جمہوریت کی طرف منتقلی کے اقدام کے طور پر دستخط کیے تھے۔

آئینی عدالتیں اپنے متعدد دائرہ اختیار کے ساتھ کئی دہائیوں سے پوری دنیا میں موجود ہیں ۔ ان کے قیام کے وقت سب سے مشکل کام ان کی حدود کا تعین ہی تھا۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آئینی عدالتوں نے فریم ورک کے اندر اپنی جگہ بنا لی۔ جرمن آئینی عدالت بھی ایسے ہی عمل سے گزری۔ اب اسے یورپ کے سب سے طاقتور آئینی ادارے کے طور پر جانا جاتا ہے۔

آئینی عدالت ہماری موجودہ عدلیہ کے دائرے سے باہر نہیں ہو گی، بلکہ اس کے اندر رہے گی اور ریاست کے ایک ستون کے طور پر اپنا اختیار رکھے گی اور استعمال کرے گی۔ درحقیقت ایسا کرنے سے عدلیہ کا ادارہ مضبوط ہو گا اور ریاست کے ایک آزاد ستون کے طور پر اس کی حیثیت مزید بہتر ہوگی۔ 1973میں آئین کے بانیوں نے سینیٹ کا تصور پیش کیا تھا۔ یہ بالواسطہ طور پر منتخب ادارہ ہونا تھا جہاں تمام صوبوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہو۔ بادی النظرمیں آئین ساز ایک اور مقننہ بنا کر اپنے اختیارات کو کمزور کر رہے تھے، جو کہ پارلیمنٹ کے اوپر تھی۔ تاہم، اُس وقت صاحبان بصیرت بخوبی جانتے تھے کہ اگر پاکستان ایک فیڈریشن کے طور پر کام کرتا ہے ، تو سینیٹ کا قیام ناگزیر ہوگا، کیونکہ یہ چھوٹے صوبوں کیلئے برابری کا میدان یقینی بنائے گا۔ وقت اور تاریخ گواہ ہیں کہ وہ درست تھے۔

آج ہم ایک ایسے ہی دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ہم بحیثیت قوم جو کچھ کرتے ہیں وہ پاکستان کے مستقبل اور ایک کامیاب فیڈریشن کے طور پر پروان چڑھنے کی صلاحیت کا تعین کریگا۔ پاکستان کے عوام کے منتخب نمائندے ایک آئینی عدالت کی صورت صوبائی طور پر متوازن عدالتی نظام بنانا چاہتے ہیں جس میں تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہو۔ آئین پاکستان کے دیباچے کے اختتامی الفاظ اس طرح ہیں :’’قومی اسمبلی میں عوامی نمائندوں کے ذریعے اس آئین کو اپنائیں، نافذ کریں اور خود کو اس کے تابع کریں۔‘‘ یہ آئین پاکستان کے عوام نے اپنے آپ کو دیا تھا، یہ اس شاندار قوم کے لوگوں کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ ہے۔ آج وہی لوگ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے آئینی عدالت بنا کر وفاق کو مضبوط کرنے اور عدالتی آزادی کو فروغ دینے کے خواہش مند ہیں۔ اس حوالے سے عوام کی کامیابی یا ناکامی قوم کے مستقبل، اسکی وفاقی اکائیوں کی ہم آہنگی اور اسکی نوخیز جمہوریت کا تعین کریگی۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے : طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

تازہ ترین