قومی پیداوار کا چار فی صد تعلیم کے لئے مختص کرنے کا عزم بہت خوب، جس کا اظہار وزیراعظم نے حال ہی میں کیا ہے مگر تعلیمی انقلاب کے خواب کو حقیقت بنانے کے لئے اور بھی کئی اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔ اس حوالے سے سب سے اہم چیز ذریعہ تعلیم ہے۔ ترقی یافتہ قوموں میں تعلیم کے عام ہونے کا ایک بنیادی سبب اپنی ہی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی سہولت ہے۔ انگلش میڈیم کا جنون اگرچہ ہم پر بری طرح طاری ہے پھر بھی کویت میں انگریزی پڑھانے والی برطانوی معلمہ پیٹریشیا ریان کے اٹھائے ہوئے اس سوال پر ہمیں ضرور غور کرناچاہئے کہ ’’آئن اسٹائن پر ٹوفل پاس کرنے کی پابندی ہوتی تو کیا ہوتا؟‘‘...اس انقلابی جرمن سائنسداں نے اپنی زبان میں جو تاریخ ساز کام کیا، اُس پر انگریزی یا کسی بھی غیرزبان میں اظہار خیال کی پابندی ہوتی تو ظاہر ہے کہ یہ عظیم علمی سرمایہ وجود ہی میں نہ آسکتا اور ایک آئن اسٹائن ہی کیا، اگر افلاطون، ابن سینا، رازی، غزالی، شیکسپیئر، لیوٹالسٹائی، نیوٹن، ایڈیسن، غالب ، اقبال ، ٹیگور اور فیض پر بھی خیالات کے اظہار کے لئے کسی غیر زبان کو اختیار کرنے کی پابندی ہوتی تو علم و ادب کی دنیا اُن کے تخلیق کردہ شہ پاروں سے یقیناً محروم رہتی لیکن ہم نے اس کھلی حقیقت کو مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا ہے کہ کسی اجنبی زبان میں اظہار خیال کی پابندی علم کی ترقی میں مددگار بننے کے بجائے رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد بہت مدت تک سالانہ کل پاکستان سائنس کانفرنسوں میں یونیورسٹی کی سطح تک اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی قراردادیں منظور کی جاتی تھیں۔ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی اور میجر آفتاب حسن جیسے اصحاب علم و فضل اردو کو ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنوانے کی کوششوں میں پیش پیش ہوتے تھے۔ 1973ء کے دستور میں اردو کو دس سال میں سرکاری زبان کی حیثیت سے سرکاری دفاتر میں رائج کرنے کی شق رکھی گئی تھی۔انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اعلیٰ تعلیم کی سطح تک انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی امتحان دینے کی اجازت دی گئی۔ یونیورسٹیاں جامعات کہلانے لگیں۔ اردو میں تراجم اور نصابی کتابوں کی تیاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لئے مقتدرہ قومی زبان قائم کی گئی ۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اس کے پہلے سربراہ بنے۔انگریزی کے بجائے صرف قومی زبان ہی کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے عملی اقدامات شروع ہوئے۔ نوری نستعلیق کی ایجاد نے اردو کی مشینی کتابت ممکن بناکر اسے سرکاری زبان کی حیثیت سے دفاتر میں رائج کرنے کا راستہ ہموار کردیا اور اس سمت میں تیزی سے کام شروع ہوگیا لیکن 1985ء کے انتخابات کے بعد پارلیمان اور حکومت کے فیصلوں کے ذریعے اردو کی ترویج و ترقی کے اس عمل کو الٹ دیا گیا۔
ملک میں ایک عرصے تک پیشہ ورانہ اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں کی طرح سرکاری اسکولوں کا معیار بھی نہایت عمدہ ہوا کرتا تھا جن میں اردو زبان ہی ذریعہ تعلیم ہوتی تھی۔ ان کے اساتذہ تربیت یافتہ ،لائق و محنتی ہوتے اور پڑھانے کو زندگی کا مشن سمجھتے تھے، بورڈ کے امتحانات میں بیشتر پوزیشنیں انہی سرکاری اسکولوں کے طالب علم حاصل کرتے تھے لیکن پھر پوری سرکاری مشینری کی طرح تعلیم کے شعبے کو بھی کرپشن نے تباہ کردیا اور سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم و تدریس کا کوئی معیار باقی نہ رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ نے تعلیم کے میدان میں اپنی جولانیاں دکھانا شروع کیں۔ مسحور کن پروپیگنڈے کے بل پر انتہائی مہنگی فیسوں والے انگلش میڈیم نجی تعلیمی اداروں کو ہر بچے کی ضرورت بنادیا گیا۔ چنانچہ اب محض حروف شناسی کے لئے بھی، جو پہلے بچے گھروں ہی میں سیکھ لیتے تھے، پانچ دس ہزار روپے ماہانہ فیس ان اداروں میں وصول کی جاتی ہے۔ کئی انگلش میڈیم اسکولوں میں ڈھائی تین سال کے بچے سے بھی صرف انگریزی میں بات کی جاتی ہے اور قومی یا مادری زبان بولنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ یہ طریق کار ایک فی صد سے بھی کم اُن مراعات یافتہ طبقوں کے لئے تو ٹھیک ہے جن کا اوڑھنا بچھونا انگریزی ہے لیکن باقی 99 فی صد سے زائد بچوں کے لئے یہ طریق کار علم کے حصول اور اپنے خیالات کے اظہار میں بلاشبہ سخت رکاوٹ ہے۔
انگریزی کو مسلط کرنے کی اس کوشش کی بنا پر اگرچہ ہماری ذہنی مرعوبیت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آج ناخواندہ گھرانوں میں بھی شادی کارڈ انگریزی میں چھپوائے جاتے ہیں جبکہ ماضی میں انتہائی تعلیم یافتہ اور مہذب گھرانوں میں بھی اس کاکوئی تصور نہیں تھا تاہم دوسری طرف قومی زبان کسی سرکاری سرپرستی کے بغیر صرف فطری اسباب کی بنا پر اتنی طاقتور ہو گئی ہے کہ اس ملک میں ایک بھی انگریزی ٹی وی چینل نہیں چل سکا۔ ملک کے قدیم ترین انگریزی اخبار نے اپنے انگریزی چینل کو بہت جلد اردو چینل میں بدل دیا۔ انگریزی کے تقریباً تمام اینکر اب اردو چینلوں میں میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ متعدد ممتاز انگریزی کالم نگار اب اردو اخبارات میں کالم لکھ رہے ہیں۔ حکمراں اپنے منصب کا حلف چاہے اردو میں پڑھنے سے گریز کریں مگر قوم سے خطاب اردو ہی میں کرنے پر مجبور ہیں۔ پارلیمان کی ساری کارروائی قومی زبان میں ہو رہی ہے۔ملک کے مختلف علاقوں کے لوگوں میں رابطے کا ذریعہ اردو ہی ہے۔اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم اور ذریعہ اظہار بناکر ہم علم کی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
تعلیمی انقلاب کے لئے ہمیں قومی زبان کو اسی طرح ذریعہ تعلیم اور ذریعہ اظہار بنانا ہوگا جیسے جرمنی، فرانس ، چین ، جاپان، ملائیشیا، ترکی اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں ہو رہا ہے۔ بلاشبہ بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے انگریزی سیکھنا ضروری ہے لیکن اس کے لئے ہر مضمون انگریزی میں پڑھانا ہر گز ضروری نہیں،ایک مضمون کی حیثیت سے انگریزی کی معیاری تدریس کافی ہے ۔ انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں علمی تحقیق اور ترقی کا جو کام دنیا میں ہورہا ہے، اس سے ملک کے اندر آگہی کے لئے اعلیٰ درجے کے دارالتراجم قائم کئے جانے چاہئیں۔ تمام ترقی یافتہ قومیں اس کا اہتمام کرتی ہیں جبکہ تمام ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم ان کی اپنی ہی زبان میں دی جاتی ہے۔ اس لئے ان کے طلبہ و اساتذہ اور تحقیق و تجزیہ کار فطری طور پر اپنے خیالات کا کسی مشکل کے بغیر فوری اور بہتر انداز میں اظہار کرسکتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکی ایٹم بموں کا ہدف بننے کے بعد جاپان زمیں بوس ہوگیا لیکن چند برسوں میں دوبارہ دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن کر ابھرا۔ یہ معجزہ جاپانی مدبروں کی جانب سے قومی تعلیم و تربیت کو اولین ترجیح قرار دینے اور ہر سطح پر قومی زبان کو ذریعہ تعلیم اور ذریعہ اظہار بنانے کا نتیجہ تھا۔ ہم بھی یہ فیصلہ کرکے ایسے ہی حیرت انگیر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ اپنی زبان میں علم حاصل کرنے والے طالب علم امتحان پاس کرنے کے لئے جوابات رٹنے پر مجبور نہیں ہوتے بلکہ بات کو سمجھ کر اپنے خیال کا اظہار دس طرح سے کرسکتے ہیں۔ اجنبی زبان پر عبور حاصل کرنے میں خرچ ہونے والا وقت براہ راست علمی استعداد بڑھانے پر صرف ہوتا ہے لہٰذا تعلیمی انقلاب کے لئے قومی زبان کو ذریعہ تعلیم اور ذریعہ اظہار بنانا سب سے بنیادی ضرورت ہے جو پچھلے ساڑھے چھ عشروں میں فطری عمل کے ذریعے پورے ملک کی زبان بن گئی ہے اور فروغ علم کے تمام تقاضوں کی تکمیل کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ قدم اٹھالیا جائے تو پاکستان میں سو فی صد تعلیم کا خواب بہت جلد شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔