چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جلوس نکالو، ڈنڈے مارو، اب یہ حیثیت رہ گئی ہے وکلاء کی۔
سپریم کورٹ میں اراضی سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ دوسروں پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔
انہوں نے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ مجھے بات کرنے دیں، ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جج بول رہا ہو تو ہم مداخلت کریں، مہذب معاشروں میں اختلافِ رائے رکھنے کا بھی ایک مخصوص طریقہ ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ درخواست میں کہاں درج ہے کہ آپ کِس کے لیے ریلیف مانگ رہے ہیں؟ آپ وکالت کریں، یہ تمام باتیں درخواست میں کہاں لکھی ہوئی ہیں؟
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ شاید تحریر کرنا رہ گیا ہو گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ منظور نہیں؟ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو تو توہینِ عدالت کا نوٹس ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جس کے خلاف آپ ریلیف چاہتے ہیں ان کو آپ نے درخواست میں فریق بنایا ہی نہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے درخواست گزار وکیل کی جانب سے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔