فرانس میں تبلیغ ِاسلام،حجاب اور مسجد کے میناروںکے بعد اب حلال گوشت اور حلال کھانوں کیخلاف بھی مہم شروع ہو گئی ہے۔ دارالحکومت پیرس میں ان دنوں اسلامی اصولوں کے مطابق حلال گوشت بیچنے اور کھانے کا بڑھتا ہوا رجحان اب سیاسی موضوع بحث بنتا جا رہا ہے، گزشتہ دنوں ایک فرانسیسی ٹیلی ویژن چینل نے اپنی نشریات میں ایک دستاویزی فلم کے ذریعے یہ انکشاف کیا ہے کہ پیرس میں لگ بھگ 95 فیصد مذبح خانے بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر حلال گوشت بیچتے ہیں، اس دستاویزی فلم کے نشر ہونے کے بعد بعض سیاسی جماعتیں، مذہبی ادارے، سوشل گروپ اور این جی اوز اس رجحان پر مشتعل نظر آتی ہیں، چند سیاسی جماعتیں اس ’’حلال مسئلے‘‘ کو آئندہ ہونیوالے صدارتی انتخابات کیلئے اپنے سیاسی منشور کا حصہ بنا رہی ہیں۔ پیرس کے میئر نے ان کھانوں اور گوشت کو متعصبانہ قرار دے دیا ہے اور اسکی وجہ یہ بتائی ہے کہ فرانس کی ایک فاسٹ فوڈ کمپنی نے یہ اعلان کیا ہے کہ اس کے ریسٹورنٹوں میں صرف حلال گوشت فراہم کیا جائے گا انکے گاہکوں کی بڑی تعداد مسلمان ہے، اس پر فرانس کے سیاسی رہنماؤں نے فوڈ کمپنی کے اس اعلان کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے اسے ’’مذہبی تعصب‘‘ قرار دیا ہے چونکہ یہ فاسٹ فوڈ کمپنی حلال گوشت فراہم کرنے کیلئے گاہکوں سے اضافی رقم بھی وصول کرےگی جس پر فرانسیسی سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ دوہری ناانصافی ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص (مسلم و غیر مسلم) حلال غذا ہی کھانا چاہتا ہو تاہم کمپنی نے اس دلیل کو ’’احمقانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اضافی رقم تو دینا ہی پڑے گی تاہم اگر کسی کو حلال گوشت پسند نہیں تو وہ کہیں اور جا سکتا ہے لیکن یہ بات اتنی سہل نہیں کہ مغربی معاشرہ اسے ہضم کر سکے۔
اس حوالے سے للی میں منعقدہ ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے (PEN پین) کے صدارتی امیدوار نے کہا کہ پیرس میں تمام مذبح خانے ایک خاص اقلیت کے طریقہ کار کو اپنا رہے ہیں وہ اس سلسلے میں قانونی کارروائی کی اپیل بھی کریںگے۔ پیرس ہی سے تعلق رکھنے والے مویشیوں کی خرید و فروخت کرنیوالے کمپنی کے سربراہ ہالی پی جین نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ انکے گروپ اور کمپنی کے ایک سروے کے مطابق پیرس اور اس کے مضافاتی علاقوں میں وہ 100فیصد مذبح خانے اسلامی طریقےکے مطابق جانوروں کو ذبح کرتے ہیں اس اقدام کے نتیجے میں سارے فرانس میں موجود تمام افراد کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر حلال گوشت کھلایا جا رہا ہے، ادھر برطانیہ میں بھی ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا ہے کہ برطانیہ کے سینکڑوں ریستورانوں میں لوگوں کو بتائے بغیر حلال گوشت کھلایا جا رہا ہے۔ برطانوی اخبار دی سن کی ایک رپورٹ کے مطابق ریستورانوں کے علاوہ اسکولوں، کالجوں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور اسپورٹس کی بڑی جگہوں پر ہزاروں افراد کو ’’خبردار‘‘ کیے بغیر بڑی مقدار میں حلال گوشت کھلایا جا رہا ہے۔
اخبار کے مطابق کئی مقامات ایسے ہیں جہاں گاہکوں نے شدید احتجاج بھی کیا ہے سکولوں میں غیر مسلم بچوں کے والدین نے انتظامیہ سے شکایت کی ہے کہ ہمارے بچوں کو حلال گوشت کھلانے سے پہلے اسکے (جانور) کلنگ کے طریقہ کار سے متعلق مفصل بتایا جائے۔ لندن میں حلال فوڈ اتھارٹی کے صدر نے کہا ہے کہ لوگوں کو بتائے بغیر حلال گوشت کھلانا غیر اخلاقی حرکت ہے صدر نے کہا کہ جس طرح مسلمانوں کے پاس حلال گوشت کھانے کی چوائس موجود ہے اس طرح غیر حلال کھانے والوں کیلئے بھی چوائس ہونی چاہیے ہر گاہک کو اس بات کی صحیح اور مکمل اطلاع ہونی چاہیے کہ اسے کیا کھلایا جا رہا ہے یا وہ کیا کھا رہا ہے؟ برطانیہ کی فارم ویلفیئر اینیمل کونسل نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ حلال گوشت پر پابندی لگائی جائے جبکہ بعض تنظیموں کا کہنا ہے کہ گاہکوں کو کھانوں کے بارے میں مکمل معلومات دی جائیں اور باخبر کیا جائے دوسری جانب انتہا پسند جماعت بی این پی نے شہر میں حلال گوشت کے خلاف مہم چلا رکھی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ہم نے یہ مسئلہ اس وقت اٹھایا جب اس کے حلقے کی کچھ ناراض ماؤں نے اس سے آ کر کہا کہ ان کے علم کے بغیر ان کے بچوں کو حلال گوشت کھلایا جا رہا ہے اس نے کہا کہ اس طریقے سے جانوروں کی ہلاکت ظالمانہ عمل ہے اور اس سے گوشت کو صحیح طور پر ’’لیسبلڈ‘‘ بھی نہیں کیا جاتا۔ لیبر کونسلر نے مخالفت کرتے ہوئے اسے انتخابی اور سیاسی اسٹنٹ قرار دیا ،یہاں میں ایک فرانسیسی سیاستدان کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں جس نے کہاکہ ’’کوئیک فاسٹ فوڈ کمپنی‘‘، جس کی 350 شاخیں فرانس میں کھانوں کا بزنس کر رہی ہیں نے، دراصل اضافی رقم کا مطالبہ کر کے اپنے گاہکوں پر ’’اسلامی ٹیکس‘‘ لگایا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ غیر مسلم ٹیکس کیوں ادا کریں؟ اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر کمپنی نے اضافی رقم لینا بند نہ کی تو وہ عدالت سے رجوع کرے گا اسی قسم کے واقعات کے باعث ان دنوں فرانس میں مسلمانوں اور غیر مسلم گروہوں میں تنازعات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ انسان اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں آزاد ہے مگر ارادہ کرنے میں آزاد نہیں۔ اور کیا آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں جو میں سوچ رہا ہوں؟