ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں ’وقت اور تہذیبوں کا باہمی تعلق: امن و ترقی کی بنیاد‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے بین الاقوامی فورم کے دوران غیر رسمی ملاقات میں صدر مملکت آصف علی زرداری اور روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق یقینا دونوں ملکوں کے قومی مفادات کے عین مطابق ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ پاک روس تعلقات معیشت اور دفاع سمیت کئی شعبہ ہائے زندگی میں مسلسل بڑھ رہے ہیں اور آنے والے برسوں میں ان میں مزید بہتری کے امکانات روشن ہیں۔ پاکستان کی پون صدی سے زائد پر محیط تاریخ میں روس کے ساتھ تعلقات میں مسلسل اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے دورہ روس کی منسوخی کے بعد امریکہ سے قربت اور دفاعی معاہدوں میں شرکت سے لے کر افغانستان میں سوویت یونین کے فوجی ایکشن کے بعد رونما ہونے والی صورت حال تک بالعموم دونوں ملکوں کے تعلقات ناخوشگوار ہی رہے۔ تاہم اپریل2007ء میںروسی وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر آئے جو کسی روسی سربراہ مملکت کا پہلا دورہ پاکستان تھا۔اس کے بعد2011ء میں آصف علی زرداری بحیثیت صدر پاکستان روس کے دورے پر گئے اوراپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن کو پاکستان آنے کی دعوت دی جوانہوں نے قبول کرلی لیکن اکتوبر2012ء میں صدر پیوٹن کا دورہ نامعلوم وجوہ کے باعث منسوخ ہوگیا تاہم حالیہ چند برسوں سے دونوں ملکوں کے روابط میں بلاتعطل بہتری اور استحکام کا سلسلہ جاری ہے اور اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان دفاع اور دیگر شعبوں میں تعاون کے کئی معاہدے بھی ہوئے ہیں۔گزشتہ ماہ روس کے نائب وزیر اعظم کی پاکستان آمد پرمعیشت اور تجارت کے شعبوں میں متعدد مفاہمت ناموں پر دستخط کے علاوہ پاکستان نے بین الاقوامی ٹرانسپورٹ کوریڈور کی تعمیر و ترقی میں شرکت کا اعلان بھی کیا جو بیلاروس، روس، قازقستان، ازبکستان ،افغانستان اور پاکستان پر مشتمل ہوگا۔روس سے زراعت کے شعبے میں تعاون کے معاملات بھی آگے بڑھ رہے ہیں جس سے ہماری معیشت کی ترقی اور استحکام میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کی زرعی پیدوار کو جدید طریقوںسے کئی گنا بڑھائے جانے کی گنجائش ہے جس کے نتیجے میں ملک نہ صرف معاشی بحران سے نجات پاسکتا ہے بلکہ خوشحالی کے ثمرات بھی عوام میں نچلی سطح تک منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ماہ رواں کے آغاز میں ماسکو میں پاک روس بزنس فورم کے اجلاس کی شکل میں باہمی اقتصادی روابط کے فروغ میں بڑی اہم پیش رفت ہوئی۔ پاکستان کی پچاس سے زیادہ کمپنیوں کے نمائندوں نے اس اجلاس میں وفاقی وزیر سرمایہ کاری عبدالعلیم خان کی سربراہی میں شرکت کی اور اس موقع پر دونوں ملکوں میں کرنسی کے بجائے بارٹر ٹریڈ یعنی مال کے مال کی بنیاد پر تجارت کا معاہدہ طے پایا جس سے باہمی تجارت میں اضافے کے ساتھ زرمبادلہ کی بچت بھی ممکن ہوگی۔ صدر زرداری نے ترکمانستان کے صدر اور ترکیہ کی پارلیمنٹ کے اسپیکر سے غیررسمی ملاقاتوں میں بھی معیشت سمیت مختلف شعبوں میںباہمی روابط بڑھانے کی ضرورت کا اظہار کیا ۔ یہ امر نہایت امید افزاہے کہ ہماری موجودہ مقتدرہ کے تمام ارکان قومی ترقی کیلئے مکمل باہمی تعاون کے ساتھ کوشاںہیں اور ان کے درمیان ماضی کی طرح کشیدگی نہیں پائی جاتی۔یہی وجہ ہے کہ حالات میں مسلسل بہتری رونما ہورہی ہے۔ صدر زرداری نے بین الاقوامی اجتماع سے خطاب میں مختلف قومی ثقافتوں کے درمیان افہام و تفہیم، امن و مکالمے کے فروغ کی خاطر فورم کے انعقاد کو ترکمانستان کی حکومت اور عوام کولائق ستائش قرار دیتے ہوئے دنیا کو تنازعات سے نجات دلانے کیلئے بجا طور پر اس طرز فکر کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔