سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت اب سماجی و اقتصادی ترقی کا تعین کرنے والا کلیدی عنصر بن گیاہے۔ اس کی واضح مثال سنگاپور سے ملتی ہے۔ سنگاپور کے پاس کوئی قدرتی وسائل نہیں اور صرف 55 لاکھ کی آبادی ہے جو کراچی کے ایک چوتھائی حصےکے برابرہے۔ اس کے باوجود گزشتہ سال اس کی برآمدات 390ارب ڈالر تھیں جبکہ پاکستان کی بر آمدات صرف 35ارب ڈالر ہیں ۔ یہ سب ان کی پر بصیرت قیادت کی وجہ سے ہے، جس نے محسوس کیا کہ علم پر مبنی دنیا میں، ترقی کی راہ جدت میں مضمر ہے۔ پاکستان کی برآمدات، افسوس، جمود کا شکار ہیں، جو بنگلہ دیش کی برآمدات سے بھی کم ہیں، اور تبدیلی کی فوری ضرورت کا جواز پیش کرتی ہیں۔ہمیں ایک ایماندار، دور اندیش اور تکنیکی طور پر قابل قیادت کی ضرورت ہے جو یہ سمجھے کہ ہمارا ملک تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ علمی معیشت کیلئے’’تہرےبلدار‘‘ (Triple Helix) ماڈل کے تحت حکومت کو مناسب منصوبہ بندی کرنا ہو گی، اس میں حکومتی پالیسیوں، اعلیٰ تعلیم اور نجی شعبے کو ساتھ مل کر چلنا ہوگا۔ ترقی کیلئے یہی تین اہم ستون ہیں۔ ہمارا ملک 120ملین نوجوانوں کی تکنیکی صلاحیتوں کو پوری طرح اجاگر کرکے ہی ترقی کر سکتا ہے۔جدت طرازی کس طرح معیشتوں کو متاثر کر رہی ہے اس کی چند مثالیں یہاں پیش کی جارہی ہیں۔ آئیے پہلے زرعی شعبے کو دیکھتے ہیں۔ دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔اس بے پناہ اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر پانی کی قلت اور قابل کاشت زمین کی دستیابی میں کمی ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں سائنس دانوں کی طرف سے خوردنی پودوں کو اگانے کے ایسے نئے اور زیادہ موثر طریقے تلاش کرنے کی کوششیں بڑھ رہی ہیں جن کی پیداواری صلاحیت زیادہ ہو اور ان کو اگانے کیلئے کم مقدار میں پانی، کھاد، غذائی اجزاء اور کیڑے مار ادویات کی ضرورت ہو۔
اس سلسلے میں جامعہ پرڈیو (University of Purdue) کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ پودوں سےپیداوار کو کم کیے بغیر انکے حجم کو کم کرنے کیلئے ایک مخصوص کیمیائی جزواستعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ایک عام پھپوندی کش دوائی (fungicide)، پروپیکونازول (propiconazole)، چھوٹے اور مضبوط مکئی کے پودے بنا سکتی ہے جو زیادہ بیج پیدا کرتے ہیں لیکن پانی، کھاد اور غذائی اجزاء کم استعمال کرتے ہیں۔ اس پھپوندی کش دوائی (fungicide)کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ انسانوں کیلئے بے ضرر ہے کیونکہ اسے عام طور پر باغوں میں چھڑکا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ زراعت میں محرک قبول (sensors) کی مدد سے بھی اعلیٰ درجے کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ رہا ہے جو پانی، کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے استعمال کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔
اب صحت کے علوم کی طرف رجوع کرتے ہیں، ایک اہم حالیہ پیش رفت عمر رسیدگی کے میدان میں ہے۔ ہماری عمر کیسے بڑھتی ہے؟ کیا ہم عمر بڑھنے کے عمل کو سست کر سکتے ہیں اور عمر کو طول دے سکتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے بہت سے کیمیا دانوں اور حیاتیاتی کیمیا کے ماہرین کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ بالغوں میں، تقریباً 50سے 70ارب خلیے ہر روز مرجاتے ہیں۔ ہر خلیے کی ساخت میں بنائے گئے ایک پروگرام شدہ عمل (Apoptosis) کے تحت یہ موت واقع ہوتی ہے ۔ 8سے 14سال کی عمر کے بچوں میں، روزانہ تقریباً 20سے 30 ارب خلیے مر جاتے ہیں، اوران کی جگہ اس سے بھی زیادہ نئے خلیے بن جاتے ہیں جو کہ حیرت انگیز طور پر بچے کے مکمل جسمانی وزن کے برابر ہی ہوتےہیں۔
آکسیجن جو ہماری بقا کیلئے بہت ضروری ہے، وہیں یہ آکسیجن ریڈیکلز کے ذریعے ہمارے ڈی این اے کے سالموں (DNA-Molecules) کو نقصان پہنچاتی ہے اور عمر بڑھنے کے عمل کو تیز کرنے کیلئے بھی دلچسپ طور پر ذمہ دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرخ انگور اور کچھ سبزیوں میں موجود حیاتین سی (Vitamin C) جیسے اینٹی آکسیڈنٹس اچھے سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ اس خراب آکسیجن سے ہمیں نجات دلاتے ہیں ۔ سائنسی ترقی نے پہلے ہی دنیا کے بیشتر حصوں میں بہتر طبی دیکھ بھال کی وجہ سے پچھلے سو سال میں زندگی کے دورانیے میں اضافہ کر دیا ہے۔ کئی مرکبات پچھلے پانچ سال میں دریافت ہوئے ہیں جو عمر رسیدگی کے عمل کو سست کرتے ہیں اوراسکو کافی بڑھا دیتے ہیں ۔ جب بوڑھے چوہوں کو اسی قسم کا مرکب رسوراٹل(Resveratol) دیا گیا تو انہوں نے چوہوں کو جسمانی طور پر جوان بنا دیا اور ان کا جسم 3سال کی عمرسے کم ہو کر ایک سال کا ہو گیا ۔ ان مرکبات میں، nicotinamide adenine dinucleotide (NAD)، resveratrol اور ذیابیطس کیلئے FDA سے منظور شدہ دوا، میٹفارمین (Metformin) شامل ہیں۔ ایسی ایجادات ان ممالک کیلئے اربوں ڈالر کما رہی ہیں جو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات تیار کر رہے ہیں۔
ایک اور شعبہ جہاں علم اور جدت طرازی نے سماجی و اقتصادی ترقی کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے وہ ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT)۔ ہندوستان نے آئی ٹی میں بڑی ترقی کی ہےاور بنگلور جیسے شہر کو عالمی ٹیکنالوجی کے مرکز میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس تبدیلی نے لاکھوں ملازمتیں پیدا کی ہیں ، معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے ، اور ہندوستان کو عالمی تکنیکی صنعت(Tech-Industry) میں ایک لیڈر کے طور پر کھڑا کر دیا ہے۔ ہندوستان کے آئی ٹی کے شعبےکی کامیابی کا کریڈٹ تکنیکی تعلیم، معاون حکومتی منصوبوں اور مضبوط نجی شعبے میں وسیع سرمایہ کاری کو دیا جا سکتا ہےاوراس کی آئی ٹی کی برآمدات اب 150ارب ڈالر سے زیادہ ہو گئی ہیں۔اسی طرح، ایسٹونیا (Estonia)، ایک چھوٹا بالٹک ملک ہے ، یہ دنیا میں سب سے زیادہ ڈیجیٹل ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک کے طور پر ابھرکر سامنے آیا ہے۔ اس ملک نے تقریباً تمام سرکاری خدمات کو ڈیجیٹائز (Digitise) کر دیا ہے، جس سے ایک ہموار اور موثر ڈیجیٹل سوسائٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس ڈیجیٹل تبدیلی نے نہ صرف اپنے شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر کیا ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی راغب کیا ہے اورملکی معیشت کو فروغ دیا ہے۔ ایسٹونیا (Estonia) کی کامیابی سماجی و اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کیلئے حکومتی گورننس اور عوامی خدمات میں ٹیکنالوجی کو ضم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
علم پر مبنی معیشت کو فروغ دینے کیلئے پاکستان کو سنگاپور، بھارت اور ایسٹونیا جیسے ممالک کی کامیابیوں سے سیکھتے ہوئے تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینی چاہیے۔ پاکستان کو اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور ایک خوشحال مستقبل بنانے کیلئے ایک پُر بصیرت حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ حکومت کو ایسے منصوبوں پر عمل درآمد کرنا چاہیے جو اعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں کی ترقی میں معاون ہوں، تحقیق اورجدت طرازی کو فروغ دیں، تعلیمی اداروں اور نجی شعبوں کے درمیان تعاون کی حوصلہ افزائی کریں۔ تب ہی پاکستان اپنی حقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرسکتا ہے اور پائیدار سماجی و اقتصادی ترقی حاصل کر سکتا ہے۔