17 اکتوبر درویش کے پیر و مرشد سر سید کا جنم دن ہے، اس حوالے سے آج کا کالم سر سید ڈے پر تحریر کرنے کا پروگرام تھا لیکن ان دنوں اسلام آباد میں جو بڑا ایونٹ ہوا ہے پہلے اس کا جائزہ۔شنگھائی تعاون تعظیم SCO کا 23واں سربراہی اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد ہوا ہے جس میں 10 رکن ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود نے شرکت کی ہے ۔ سفارتی لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماشاءاللہ الحمدللہ پاکستان کی میزبانی میں ایس سی او کی کامیاب سمٹ منعقد ہوئی ہے جس میں چین روس انڈیا اور ایران کے علاوہ سینٹرل ایشیا کے دیگر چھ ممالک کی قیادتیں شریک ہوئی ہیں بالخصوص ہندوستان سے 9 برس قبل سشما سوراج تشریف لائی تھیں اتنے طویل عرصے بعد فارن منسٹر ایس جے شنکر پدھارے ہیں، جنہیں ہمارے وزیر خارجہ کو خود ریسیو کرنا چاہیے تھا، ٹیررازم کے خلاف جدوجہد سے لے کر ایس سی او ممالک میں باہمی تجارت اور ہمہ پہلوتعمیر و ترقی کے منصوبوں پر بھرپور گفت و شنید ہوئی، جے شنکر نے ایس سی او کی قیادت سنبھالنے پر پاکستان کیلئے نیک تمنائوں کا اظہار کیا، یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اسے ایک تاریخی اقدام قرار دے رہے ہیں۔ درویش کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مصنوعی لفاظی کی بجائے کسی بھی ایشو کی حقیقت سامنے لائے اس حوالے سے ایس سی او کی اسلام آباد میں منعقدہ سمٹ کوئی بھی بڑا بریک تھرو دلانے میںکامیاب نہیں رہی، کہنے کو یہ سمٹ تھی مگر اس میں چینی صدر شی اور روسی صدر پیوٹن تو رہے ایک طرف انڈین وزیراعظم مودی اور ایرانی صدر مسعود پرشکیان نے بھی خود شریک ہونے کے بجائے اپنے وفود بھیجنے پر اکتفا کیا ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ،سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اپنا سارا غصہ انڈین وزیراعظم پر نکالتے ہوئے کہا کہ مودی میں اعتماد نہیں ہے کہ وہ خود پاکستان آئیں ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جب تک کشمیر کی بنیادی حیثیت 2019ءسے پہلے والی پوزیشن پر واپس نہیں آتی ہم بھارت سے کسی ایشو پر بات نہیں کرینگے، انکے برعکس حکمران مسلم لیگ ن کے صدر سابق وزیراعظم نواز شریف نے انتہائی مدبرانہ گفتگو کی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر انڈین صحافی برکھا دت سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے محبت بھرے اسلوب میں کہا کہ اگر انڈین پرائم منسٹر نریندر مودی خود پاکستان آتے تو بہت بہتر ہوتا لیکن مجھے امید ہے کہ ایسا موقع ملنا بہت دور نہیں جب وہ اور ہم اکٹھے بیٹھ کر بات چیت کر سکیں گے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس پاکستان اور بھارت کو باہمی تعلقات بہتر بنانے کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں میں تو شروع سے ہی پاک بھارت تعلقات کی بہتری کا متمنی رہا ہوں ۔ انڈین صحافی برکھادت کے مطابق اپنے انٹرویو میں نواز شریف نے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان کی جانب سے لاہور ڈیکلریشن کی خلاف ورزیاں ہوئی تھیں جو لاہور میں انکے اور انڈین پردھان منتری اٹل بہاری واجپائی کے درمیان طے پایا تھا۔ یہ نواز شریف ہی تھے جو 2014ءمیں نریندر مودی کے پرائم منسٹر منتخب ہونے پر انڈیا گئے تھے اور ان کی تیسری جیت پر انہوں نے مبارکباد کا پیغام بھی بھجوایا تھا انہی کے دور میں مودی لاہور بھی آئے تھے، آج ہی درویش نے اپنے ایک اہم وفاقی وزیر سے جب یہ کہا کہ آپ پاک انڈیا منافرت ختم کرنے اور اسے دوستی میں بدلنے کیلئے اپنا مثبت رول کیوں ادا نہیں کرتے؟ تو وہ جھٹ سے بولے کہ بڑے میاں صاحب یہ رول بطریق احسن ادا کر رہے ہیں، عرض کی کہ پھر چھوٹے میاں کا رویہ ان سے مختلف کیوں ہے؟ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ایک قومی قائد اور منجھے ہوئے سیاستدان کی حیثیت سے نواز شریف ہمیشہ خطے کے دو ارب انسانوں کی بھلائی کیلئے اپنے تفکرات کا اظہار کرتے رہتے ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے اصل طاقتور جو ہماری خارجہ پالیسی کے معمار ہیں انہی کے ساتھ اس ایشو پر محبت و احترام کے ساتھ استدلال کرتے ہوئے مکالمہ کیا جائے کہ پاکستان کا قومی مفاد بھارت دوستی میں ہے نہ کہ دشمنی میں۔ پچھلی سات دہائیوں سے کشمیر ایشو جو بھی رہا ہے اب اس میں جان نہیں اور تو اور ہماری پوری مسلم امہ میں بھی اس کی حمایت نہیں ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک بھی اس ایشو پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں اس لیے ہماری خارجہ پالیسی میں اب خالص پاکستان کے معاشی وتجارتی مفادات کو اولیت حاصل ہونی چاہیے، تعلقات کی خرابی کا سارا ملبہ جن پر ڈال دیا جاتا ہے وہ حقائق سے بے خبر نہیں بلکہ کئی معاملات کو وہ ہمارے موقع پرست لیڈروں سے بہتر سمجھتے ہیں، انہی میں سے ایک طاقتور شخصیت نے یہ کہا تھا اس وقت پاک بھارت تجارتی تعلقات کی بحالی کا پلڑا پاکستان کے حق میں ہے یہ بھی کہ آج کے دور میں ممالک انفرادی طور پر نہیں بلکہ علاقائی طور پر باہم مل کر ترقی کر سکتے ہیں اس حوالے سے جو سروے کروایا گیا تھا، کتنی خوشگوار تبدیلی ہے کہ پنجاب جسے دیگر صوبوں کے برعکس ہمیشہ مخالفت میں پیش پیش دکھایا جاتا رہا ہے سروے میں واضح ہوا کہ پنجاب کے نوجوانوں کی بھاری میجارٹی انڈیا سے بہترین تعلقات استوار دیکھنا چاہتی ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں ہونیوالی تقاریر سے اس حقیقت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ہر ملک کا سارا زور معاشی طاقت بننے اور باہمی تعلقات کو تجارتی بنیادوں پر استوار کرنے پر ہے اس سلسلے میں یورپین یونین کی مثالیں تو دی جاتی ہیں لیکن مغربی جمہوری اقوام نے بالفعل جو اقدامات کیے انہیں بطور مثال اپنایا نہیں جا رہا ۔ اس وقت پوری دنیا میں جس طرح علاقائی تعاون کی اپروچ ابھری ہے ایس سی او کے ممبر ممالک کے باہمی تنازعات کو یہاں زیر بحث لانے کی بجائے ساری تگ و دوتجارتی و معاشی تعلقات کو بڑھاوا دینے پر صرف کرنا ہوگی ، پاکستان کو تنازعات کے باوجود انڈیا چائنہ تجارتی حجم سے سبق سیکھتے ہوئے سارک کی بحالی کا اہتمام کرنا ہو گا۔