• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان میں ریاست نے دفاع کی نجکاری کرکے نہایت سنگین غلطی کا ارتکاب کیا،اس ملک میں ایک ہی سپاہ ،ایک ہی لشکر اور ایک ہی حزب ہونی چاہئے اور اس کا نام عساکر پاکستان ہے۔ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کرنا فوج کی کل وقتی ذمہ داری ہے اوریہ کام کسی جہادی تنظیم یا گروہ کو ٹھیکے پر نہیں دینا چاہئے ۔قائداعظم کی زندگی میں ہی میجر جنرل اکبر خان کو ’’طارق بن زیاد‘‘کا جہادی نام دیکر کشمیر آزاد کروانے کیلئے ’’آپریشن گل مرگ ‘‘کے نام سے مہم جوئی کا آغاز کرکے وطن عزیز میں دفاع کی نجکاری کا آغاز کردیا گیا بعد ازاں جہاد افغانستان اور پھر جہاد کشمیر کے دوران یہ سلسلہ عروج پر پہنچ گیا۔آج ہمیں دہشت گردی اور انتہاپسندی سمیت جتنے موذی امراض کا سامنا ہے اس کا سبب یہی ہے ۔جہاد کشمیر ہو یا پھر تزویراتی گہرائی کی ریاستی پالیسی ،خیبرپختونخوا کا علاقہ میدان جنگ بنا اور پختون نوجوانوں کو جنگجو اور بہادر قوم کا جھانسہ دیکر اس آگ میں جھونک دیا گیا۔جس طرح دنیا پھر میں پاکستان کا نام دہشتگردی سے جڑ گیا ،اسی طرح یہاں جب بھی بم دھماکے ہوتے ہیں تو پشتونوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتاہے۔اس گریٹ گیم کے دوران پشتونوں کی کئی نسلیں برباد ہوگئیں۔معاشی طور پر تو نقصان ہوا ہی سماجی اعتبار سے بھی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔لیکن اس کا ذمہ دار کون ہے؟چند روز قبل جمرود میں ہونے والے پشتون قومی جرگے میں حقائق کو مسخ کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پختون خطہ کے ان مسائل کا ذمہ دار پنجاب ہے ۔کہا جاتا ہے کہ ریاست کی پالیسی جرنیلوں کے ہاتھ میں رہی ہے اور چونکہ افواج پاکستان میں اکثریت پنجاب کی ہے اس لئے پنجاب قصور وار ہے۔کیا واقعی ایسا ہے؟

اگر بلوچ اور سندھی یہ گلہ کریں تو بات سمجھ آتی ہے مگر بری فوج کی افسر کور میں پشتونوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے ۔2011ء میں پشتون فوجی افسروں کی شرح 14.5فیصد تھی جو اب 25فیصد ہوچکی ہے جبکہ پاکستان کی آبادی میں پشتونوں کا تناسب 20فیصد ہے۔اگر اصول یہی ہے کہ جرنیلوں کا تعلق کس علاقے اور قومیت سے ہے تو پھر اس مفروضے کے تحت خیبرپختونخوا برابر کا حصہ دار ہے۔جہاں تک مسائل کا تعلق ہے کیا ہی بہتر ہوتا کہ پشتون قومی جرگے میں قومیت اور علاقائیت کے بجائے پاکستانیت کی بات کی جاتی ۔یہ مطالبہ تو کردیا گیا کہ بجلی پانچ روپے یونٹ فراہم کردی جائے مگر بجلی چوروں کے خلاف کسی قسم کی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا۔اس پہلو پر غور نہیں کیا گیا کہ خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ بجلی چوری کی جاتی ہے ۔اسی طرح طالبان اور فوج کو دو ماہ میں علاقہ چھوڑنے کا الٹی میٹم دے دیا گیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ فوج یہاں آئی کیوں ؟ جب فوج نہیں تھی تو کیا ہورہا تھا؟جہادی کمانڈروں نے یہاں اپنی حاکمیت قائم کررکھی تھی ،چوراہوں میں گلے کاٹے جاتے تھے ،ہر طرف بندوق برداروں کا راج تھا ،اگر فوج یہاں سے واپس چلی گئی تو لر و بر میں طالبان کا راج ہوگا اور پھر منظور پشتین جیسے قوم پرست کہیں گے ،ہمارے خلاف سازش ہوئی ہے ،ان طالبان کو فوج نے مسلط کیا ہے ۔آپ اچھے اور برے ہر قسم کے طالبان کو یہاں سے بیدخل کردیں تو فوجی چھائونیوں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ۔

پشتون قومی جرگہ میں 20سال کے دوران ہونے والے نقصانات کے اعداد و شمار بھی پیش کئے گئے ۔بتایا گیا کہ اس جنگ میں کتنے پختون شہید ہوئے ،کتنے بے گھر ہوئے ،کتنے قبائل مشران کے گلے کاٹے گئے ،کتنے بم دھماکے اور خود کش حملے ہوئے ،کتنی مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔لیکن یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کمانڈر نیک محمد،بیت اللہ محسود،حکیم اللہ محسود ،خالد سجنا جسے پشتون بھی شہدا کی اس فہرست میں شامل ہیں یا نہیں۔یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ سب کارروائیاں کس نے کیں؟کیا پنجابیوں نے خود کش جیکٹیں پہن کر حملے کئے؟شاید آپ پنجابی طالبان کی بات کریں ،جنوبی پنجاب میں عصمت اللہ معاویہ اور قاری سیف جیسے بعض جہادی اس مہم کا حصہ ضروربنے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہی ۔آج تک جتنے خودکش حملہ آورپکڑے گئے یا پھر بم دھماکوں میں کام آئے کیا ان میں سے ایک بھی پنجابی نہیں تھا۔اس کے برعکس پنجاب میں دہشتگردی کی جتنی وارداتیں ہوئیں ،ان میں سے بیشتر کارروائیوں میں پشتون ملوث پائے گئے ،اس حساب سے تا وان آپ کی طرف نکلے گا اور لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔

ایک اور تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ان پالیسیوں کا بینفشری پنجاب ہے ،فائدہ پنجاب کو ہوا ،دہشتگردی کے خلاف جنگ میں لاشیں تو پختونوں نے اُٹھائیں مگر ڈالر پنجابیوں کے حصے میں آئے۔مجھے بتائیے منشیات کے دھندے میںکون ملوث ہے؟اس میں نقصان کون اُٹھا رہا ہے اور فائدہ کسے ہورہا ہے؟ اسمگلنگ سے مال کون بنا رہا ہے اور نقصان کسے ہورہا ہے؟پشتون قومی جرگے میں تجارت کے پرانے روٹ بحال کرنے کے مطالبے کا یہی مطلب ہے کہ اسمگلنگ کے لئے کھلی چھٹی دیدی جائے۔اسمگلنگ میں ملک کو دوطرفہ نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے ۔ایک طرف پاکستان سے گندم اور چاول سمیت زرعی اجناس کے علاوہ جواہرات اورمعدنیات بیرون ملک اسمگل ہوتی ہیں جبکہ دوسری طرف ایرانی تیل ،نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اور دیگر اشیاء اسمگل کرکے پاکستان لائی جاتی ہیں۔راولپنڈی ،لاہور ،فیصل آباد سمیت کسی بھی شہر میں کاروباری افراد سے پوچھ لیں ،ہنڈی اور حوالہ کے کاروبار پر کس کی اجارہ داری ہے اور کسے نقصان ہورہا ہے؟ غیر قانونی اسلحہ کہاں تیار ہوتا ہے ،اس سے دولت کون کما رہا ہے اور لاشیں کہاں گرتی ہیں ؟پنجاب سے اوسطاً یومیہ 416گاڑیاں چوری ہوتی ہیں اور یہ کہاں لے جائی جاتی ہیں ؟اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کون ملوث ہے ؟جب یہ سوالات اُٹھائے جائیں تو کہا جاتا ہے کہ ریاست کارروائی کرے ،ان جرائم کا تدارک کیا جائے ،کس نے روکا ہے ؟ لیکن جب ریاست دہشتگردی میں ملوث افراد کے شناختی کارڈ بلاک کرتی ہے تو آپ جرگہ بلالیتے ہیں ،فوج کو الٹی میٹم دے دیتے ہیں کہ نکلو یہاں سے تو ریاست کیا کرے؟

تازہ ترین