اردو کے نامور شاعر جناب بہزاد لکھنویؔ نے ایک بڑا دَعویٰ کر دیا تھا
اے جذبۂ دل گر مَیں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کیلئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
شاید اُن کی زندگی میں تو یہ دعویٰ عملی جامہ نہ پہن سکا ہو، مگر پاکستان کے عوام کے عظیم جذبوں اور تمام جہانوں کے خالق کی رحمتِ تمام سے پاکستان کے اندر یہ کرشمہ رُونما ہو چکا ہے اور منزلِ مراد سامنے آ گئی ہے۔ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ کانفرنس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ہے اور وُہ دُنیا بھر کی نگاہوں کا مرکز بن چکا ہے۔ یہ واقعہ اِس لیے غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ چند سال پہلے تک پاکستان معاشی بدحالی اور سفارتی تنہائی کا بری طرح شکاردِکھائی دیتا تھا، مگر قدرت ہم پر مہربان ہوئی،تو مختلف قومی شخصیتوں اور اِداروں نے شبانہ روز محنت اور غیرمعمولی تدبر سے منظرنامہ یکسر تبدیل کر دیا۔ دنیا بھر نے دیکھا کہ دلہن کی طرح سجے ہوئے اسلام آباد میں آٹھ ممالک کے وزرائےاعظم پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد تشریف لائے جبکہ ایران کے اوّل نائب صدر نے شرکت کی اور بھارت کے وزیرِخارجہ بھی چلے آئے۔ یہ ممالک یوریشیا کے اسّی فی صد رقبے، دنیا کی چالیس فی صد آبادی اور بتیس فی صد جی ڈی پی کے مالک ہیں۔ اِن میں چار رِیاستیں وہ ہیں جو ایٹمی صلاحیت کی حامل ہیں جبکہ دو کے پاس اقوامِ متحدہ میں ویٹو کا اختیار بھی ہے۔
پاکستان نے اپنے مہمانوں کی حفاظت اور قیام و طعام کے نہایت عمدہ اِنتظامات کیے جن کا اعتراف آنے والے صحافیوں نے کیا۔ یہ حقیقت بھی پوری طرح اُجاگر ہوئی کہ پاکستانی اچھے مہمان نواز اور بہت خوش اخلاق شہری ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام آباد میں آئے ہوئے سینکڑوں مہمان واپس جائیں گے، تو اُن پر وہی کیفیت طاری ہو گی جس کا ذکر شاعرِ تغزل جناب جگر مرادآبادی نے اپنے ایک لازوال شعر میں کیا تھا ؎
اُس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے
میرے خیال میں اِس عظیم الشان کانفرنس کا پاکستان کو یہی سب سے بڑا فائدہ ہو گا جو اِس کے مستقبل کو تابندہ بنانے میں نہایت اہم کردار اَدا کرے گا۔ اعتماد کے رشتے مضبوط ہوں گے اور باہمی تعاون کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے اور ترقی اور خوشحالی کے مشترکہ اہداف حاصل کیے جا سکیں گے۔ پاکستان نے گزشتہ چند برسوں میں جو صدمے برداشت کیے ہیں اور جو اَذیتیں اٹھائی ہیں، اُن کا جب شمار کرنے بیٹھا، تو مجھے ’خوشبو کی شاعرہ‘ پروین شاکر کا یہ شعر بےاختیار یاد آیا
کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی اُسکے در کبھی در بدر
غمِ عاشقی تیرا شکریہ ہم کہاں کہاں سے گزر گئے
وزیرِاعظم پاکستان جناب شہباز شریف نے 16؍اکتوبر کی صبح سربراہی اجلاس کا افتتاح کیا اور اُن کے مؤثر خطاب سے ایک دنیا متاثر ہوئی۔ یہ عجب حُسنِ اتفاق ہے کہ جب اُن کے بڑے بھائی جناب نواز شریف وزیرِاعظم تھے، تو جون 2017ء میں پاکستان کو شنگھائی تنظیم کی بہت کوششوں کے بعد رکنیت ملی تھی، کیونکہ بھارت اِس میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہا تھا۔ پھر سات سال بعد جناب شہباز شریف کو اِس کی سربراہ کانفرنس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا جو پاکستان کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اُنہوں نے چار اَہم نکات پر بطور خاص زور دِیا ہے اور پوری عالمی برادری کی توجہ اُن خدشات کی طرف مبذول کرائی ہے جو آسیب کی طرح انسانوں کی خوشیوں، آرزوؤں اور اَعلیٰ روایتوں کو نگلتے جا رہے ہیں۔ اُن کا اِس بات پر اصرار تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں نے انسانی ماحول کو بہت ہولناک بنا دیا ہے۔ پاکستان میں 2022ء میں جو سیلاب آئے، اُس میں لاکھوں مکان تباہ ہوئے، ہزاروں جانیں چلی گئیں اور معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا، چنانچہ سب سے بڑی ضرورت ’اجتماعی دانش’ اور ’اجتماعی کاوشوں‘ سے کام لینے کی ہے۔ ہمیں اُسی رفتار سے منصوبہ بندی کرنا ہو گی جس رفتار سے حالات میں غیرمعمولی تغیر پیدا ہو رَہا ہے۔ دوسری فکرانگیز بات اُنہوں نے یہ کہی کہ غربت کا خاتمہ انسانیت کی بقا کیلئے ازبس ضروری ہے اور یہ معاشی کے بجائے ایک بہت بڑا اَخلاقی مسئلہ ہے۔ اُنہوں نے اِس بڑی حقیقت پر بھی زور دِیا کہ ایک مضبوط اور خوشحال افغانستان خِطے کی خوش حالی کیلئے ناگزیر ہے اور ہمیں اِس امر کا بھی پورا پورا اِہتمام کرنا ہو گا کہ اُس کی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ کی جا سکے۔ جناب شہباز شریف نے عالمی برادری سے پوری قوت کے ساتھ مطالبہ کیا کہ فلسطین میں فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔
شنگھائی سربراہ کانفرنس کے مثبت نتائج نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔ چین کے وزیرِاعظم جو گیارہ برس بعد پاکستان کے چار رَوزہ دَورے پر آئے، اُنہوں نے دوستی کا حق ادا کر دیا اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاک چین دوستی ہر تصوّر سے ماورا اَور پائیداری کی نادر مثال ہے۔ اُنہوں نے پاکستان کو گوادر اِنٹرنیشنل ایئرپورٹ کا تحفہ دیا جو پورے ایشیا میں ایک جدید ترین ہوائی اڈہ اَور مستقبل میں اقتصادی سرگرمیوں کا بہت بڑا مرکز ہو گا۔ اِس کے علاوہ تیرہ یادداشتوں پر دستخط ہوئے جو پاکستان کو ہر اہم شعبے میں ترقی یافتہ بننے میں کلیدی کردار اَدا کریں گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص کرم کی بات ہے کہ روس نے بھی تعاون کیلئے اپنے بازو کھول دیے ہیں۔ بہت بڑی تجارتی ڈیل کی ہے جس میں مصنوعات کا تبادلہ ہو گا اور اُن کا دائرہ پانچ ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ وہ پاکستان کی اُس راہداری میں شرکت پر اصرار کر رہا ہے جس کا مقصد سڑکوں اور ریل کے ذریعے ایشیا کو یورپ سے جوڑ دینا ہے۔ سربراہ کانفرنس میں یہ ایک اچھی پیش رفت بھی ہوئی ہے کہ بھارت کے وزیرِخارجہ جناب جے شنکر ایسے حالات میں پاکستان آئے جب دونوں ممالک کے درمیان 2019 سے سفارتی تعلقات منقطع اور مذاکرات کے دروازے بند ہیں۔ آنے سے پہلے اُنہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ دو طرفہ معاملات پر کوئی بات نہیں کریں گے، مگر اُنہوں نے سربراہ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ مل کر چلیں گے۔