امریکی الیکشن کے حوالے سے میری آپاں جی کے بیٹے ساجد تارڑ سے کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ آپاں جی کے پتر کا جھکاؤ کس طرف ہے۔ میں اکتوبر کی 3 تاریخ سے امریکا میں ہوں، کچھ دن ڈیلس اور ہیوسٹن میں رہا، یہ دونوں شہر امریکی ریاست ٹیکساس میں ہیں، واضح رہے کہ ٹیکساس دنیا کی آٹھویں بڑی معیشت ہے اور امریکا کے امیر ترین کاروباری افراد اسی ریاست میں رہتے ہیں۔ ٹیکساس کے بعد مجھے میری لینڈ، ورجینیا اور واشنگٹن ڈی سی میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا، ظاہر ہے ان ریاستوں میں بھی امریکی الیکشن زیر بحث رہے، میں آج یہ سطور اوہائیو سٹیٹ سے لکھ رہا ہوں، گزشتہ روز پینسلوینیا میں گزرا، امریکی پول کیا بتا رہے ہیں، ان کے سروے کیا کہہ رہے ہیں، مجھے اس سے غرض نہیں کیونکہ میں سیاسی معاملات کو اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہوں، میرے قارئین کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ جب ہلیری کلنٹن اور ٹرمپ کا الیکشن ہو رہا تھا تو سروے، پول اور میڈیاہلیری کلنٹن کو جتوا رہے تھے مگر میں اکیلا یہ گزارش کر رہا تھا کہ ٹرمپ جیت جائے گا پھر ایسا ہی ہوا، ٹرمپ جیت گیا، اب بھی ویسی ہی صورت حال ہے، سروے اور پول کملا ہیرس کو جتوا رہے ہیں لیکن امریکی سیاست کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ٹرمپ یہ الیکشن آرام سے جیت جائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت میں تین چار چیزوں کا مرکزی کردار ہو گا 1۔ امریکیوں کے نزدیک جو بائیڈن کا عہد بیڈ گورننس کا دور تھا یعنی امریکی عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ بائیڈن کی حکمرانی اچھی نہیں تھی۔ 2۔ انفلیشن کے سبب عام امریکیوں کی زندگی میں مشکلات آئیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ امریکا میں عام آدمی نے بائیڈن کے دور حکومت میں سفر Suffer))کیا، اسی طرح ہائی انٹرسٹ ریٹ کے باعث عام امریکی بزنس مین خاص طور پر مڈل کلاس کے بزنس مین بری طرح متاثر ہوئے، ان کے نزدیک ان کے کاروباری نقصانات کی ذمہ دار ڈیموکریٹس کی وہ حکومت ہے جس کی قیادت جو بائیڈن کر رہے ہیں۔ 3۔ بائیڈن نے جنگوں کی گیم شروع کی، زیادہ تر امریکی شہری جنگوں کے کھیل کو پسند نہیں کرتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگوں سے نفرت بڑھتی ہے، جنگوں سے بربادیاں ہوتی ہیں اور جنگیں معیشت پر برا اثر ڈالتی ہیں، عام امریکی دنیا کو جنگوں میں نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ وہ امریکا کی بہتری چاہتا ہے۔ 4۔ آپ اسے قدامت پسندی قرار دیں یا بنیاد پرستی کہیں، امریکیوں کی اکثریت عورت کی حکمرانی کو پسند نہیں کرتی، یہ باتیں میں اس موسم میں لکھ رہا ہوں، جس موسم میں بھارت سے آئے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک نے عورت کی حکمرانی پر تنقید کرتے ہوئے حسینہ واجد اور مریم نواز کا تذکرہ کیا، امریکی معاشرے میں بھی اس حوالے سے قدامت پسندانہ سوچ ہے کہ وہ عورت کو حکمران نہیں دیکھنا چاہتے، اگر امریکیوں کے نزدیک عورت کی حکمرانی قابل قبول ہوتی تو وہ ہلیری کلنٹن کو قبول کر لیتے کیونکہ ہلیری کلنٹن، کملا ہیرس سے کہیں زیادہ مقبول تھیں، ان کا سیاسی تجربہ بھی کملا ہیرس سے کہیں زیادہ تھا،ہلیری کلنٹن میڈیا فرینڈلی بھی تھیں اور میڈیا انہیں بڑھا چڑھا کر پیش بھی کرتا تھا، کملا ہیرس کو میڈیا کی وہ سپورٹ حاصل نہیں جو ہلیری کلنٹن کو میسر تھی۔ چند ہفتے پہلے روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے امریکی انتخابات میں کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کیا، پیوٹن کی حمایت کا اعلان کملا ہیرس کو الٹا پڑے گا کیونکہ پیوٹن کا یہ اعلان ایک سازش ہے اور یہ سازش دراصل ٹرمپ کو جتوانے کیلئے ہے۔ آپ سب کے علم میں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا نہیں بلکہ انہیں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا ہے، اسی لئے پیوٹن نے کملا ہیرس کی حمایت کرکے امریکی اسٹیبلشمنٹ کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پھر سے کہہ رہا ہوں کہ سروے کچھ بھی کہیں، میڈیا رپورٹس کچھ بھی ہوں، اصل امریکی ووٹرز ٹرمپ کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے اور ٹرمپ آپ کو یقینی طور پر جیتتا ہوا نظر آئے گا۔ مسلسل حملوں اور مخالفتوں کے سبب ٹرمپ کیلئے صادق حسین شاہ کا شعر یاد آتا ہے کہ
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے