لاہور ہائی کورٹ میں تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔
عدالت کے حکم پر آئی جی پنجاب عثمان انور اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے کہا کہ آئی جی صاحب ویڈیو کو وائرل ہونے سے روکا کیوں نہیں گیا، کیا آپ نے ویڈیو روکنے کے لیے کسی اتھارٹی سے رابطہ کیا؟
آئی جی پنجاب نے عدالت میں کہا کہ ہم نے پی ٹی اے سے رابطہ کیا۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے کہا کہ آج 18 تاریخ ہے ویڈیو 13 اور 14 اکتوبر کو وائرل ہوئی، آپ نے جاگنا تب ہوتا ہے جب آگ لگ چکی ہوتی ہے سب جل چکا ہوتا ہے، آپ نے متعلقہ اتھارٹیز سے بہت تاخیر سے رابطہ کیا۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ 700 سے زائد اکاؤنٹس سے ویڈیوز وائرل ہوئیں، پولیس کے پاس سائبر کرائم کو دیکھنے کے لیے صرف ایک ادارہ ہے۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے کہا کہ آئی جی صاحب یہ آپ کی ناکامی ہے آپ نے بچوں کو سڑکوں پر آنے دیا، آپ ہمیں 2 دن کا حساب دیں، 14 اور 15 اکتوبر کو آپ نے کیا کیا؟ آج بھی ایکس اور ٹک ٹاک پر ویڈیوز پڑی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2 دن آپ نے کچھ نہیں کیا، آپ انتظار کرتے رہے، آپ نے جو دستاویزات جمع کرائی ہیں ان کے بعد آپ نے دو دن کچھ نہیں کیا، 16 اکتوبر سے کام شروع کیا، نیت ہو تو سب کام ہو جاتے ہیں۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ڈیٹا کو اپ لوڈ ہونے سے روکنا اتنا آسان نہیں ہوتا نہ ہی ہمارے پاس اتھارٹی ہے، ہم ایک اکاؤنٹ سے روکیں گے تو دوسرے سے ری پوسٹ ہو جاتی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ جو بچیاں سڑکوں پر آئیں اگر انہیں کچھ ہو جاتا تو کون ذمے دار تھا؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت میں کہا کہ 12 اکتوبر کو ایک پوسٹ سے کہا گیا کہ نجی کالج میں لڑکی کا ریپ ہوا، اسی دن ایس ایس پی متعلقہ کیمپس میں پہنچے اور تحقیقات شروع کیں، فرسٹ ایئر کے بچوں کے اپنے واٹس ایپ گروپ ہیں جن پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں، ہر گروپ میں پوسٹ شیئر ہوئی مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کس کا ریپ ہوا۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ پولیس نے 700 سے زائد اکاؤنٹس کی شناخت کی، انگلینڈ میں بھی اپ لوڈ روکنے کی طاقت نہیں ہے۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے کہا کہ وہاں کی بات مت کریں۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم نے وزارتِ داخلہ سے بات کی، انہیں مراسلے لکھے، 700 سے زائد اکاؤنٹس پر ویڈیوز چل رہی تھیں، انہیں بند کرنے کا اختیار پی ٹی اے کے پاس ہے، ہمارے پاس جتنی اتھارٹی ہے، ہم اس پر کام کر رہے تھے، ہم نے کچھ اکاؤنٹس کی شناخت کی، وہ ابھی تک ڈیلیٹ نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ اگر ارادہ ہو تو سارے کام ہوتے ہیں۔
آئی جی پنجاب عثمان انور نے جواباً سوال کیا کہ ہمارا کیوں ارادہ نہیں تھا؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ایک پوسٹ اپ لوڈ ہوئی کہ نجی کالج میں طالبہ سےمبینہ زیادتی کا واقعہ ہوا ہے، علاقے کے اے ایس پی کالج پرنسپل سے ملے، سی سی ٹی وی چیک کی، ہر بچہ کہہ رہا تھا کہ زیادتی ہوئی ہے مگر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا، دوسرے کیمپس کے بچے بھی اس کیمپس پہنچ گئے، ایک منظم طریقے سے یہ سب کچھ ہوا، جب توڑ پھوڑ ہوئی تو وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے ایک اسپیشل کمیٹی تشکیل دی، پیر کے دن تک کوئی زیادتی کا شکار سامنے نہیں آیا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ افواہ یہ ہے کہ مبینہ زیادتی 9 یا 10 اکتوبر کو ہوئی، 2 اکتوبر کو ایک بچی کا لاہور جنرل اسپتال میں علاج ہوا، 4 اکتوبر کو یہ بچی ایک نجی اسپتال جاتی ہے، بچی 5 دن آئی سی یو میں رہی۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ صرف یہ ایک بچی نہیں آ رہی تھی تو کسی نے کہا کہ ہمیں زیادتی کی شکار بچی مل گئی، صرف اس بنا پر کہ بچی کالج نہیں آ رہی اسے زیادتی کی افواہ سے جوڑ دیا گیا، اگر آپ کہیں گی تو میں آپ کی اس بچی سے ملاقات کروا سکتا ہوں، ایک اور صاحب نے جو خود کو وکیل کہتے ہیں ان بچیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ویڈیو بنائی، اس وکیل کو مجسٹریٹ کی جانب سے مقدمے سے بری کر دیا گیا، مقدمے سے بری کرنے کا نیا رواج چل پڑا ہے، ہم جسے گرفتار کرتے ہیں وہ اگلے دن ہیرو بن جاتا ہے، ہم شاید اتوار کے دن تعین نہیں کر سکے کہ اتوار کو کیا ہونے جا رہا ہے، ہمارے حوالے سے کچھ ناکامیاں ضرور ہیں۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ ایک منظم طریقے سے ہوا مگر جب یہ ہوا موقع پرستوں نے فائدہ اٹھایا، لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں ہراسانی کی کتنی شکایات ہیں؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ 14 اکتوبر کو 1 بچی نے ہراسانی کی درخواست دی۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے کہا کہ اس شخص کے خلاف کتنی شکایات ہیں؟
رجسٹرار لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی نے جواب دیا کہ اس شخص کے حوالے سے ایک ہی شکایت ہوئی ہے، ہم نے مذکورہ شخص کو معطل کر دیا ہے، ہماری ہراسمنٹ کمیٹی بہت عمدہ طریقے سے کام کر رہی ہے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے سوال کیا کہ اس شخص کے پاس طالبہ کا نمبر کیسے آیا؟
رجسٹرار نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ نمبر مذکورہ شخص کا نہیں تھا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتی ہیں؟ کوئی ڈاکیومنٹ دیں۔
رجسٹرار یونیورسٹی نے کہا کہ ہم اس حوالے سے رپورٹ جمع کروائیں گے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ آج بھی کوئی کہتا ہے کہ اس نے یہ واقعہ ہوتے دیکھا ہے تو اس عدالت میں پیش ہو، جو نقصان ہوا ہے کالج کی بلڈنگ کا اس کو کیا والدین پورا کریں گے؟ اگر کسی بات کا غصہ ہے تو سب سے پہلے اپنا گھر توڑیں، ایک فیک نیوز پر اگر ایسا ہوا تو انتہائی افسوس ناک ہے، بچوں کے مستقبل کا سوچیں، ان کا مستقبل خرابی کی طرف جا رہا ہے، تعلیم کا بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے، ایک دن چھٹی ہو جائے تو تعلیمی شیڈول میں اس کو ریکور نہیں کیا جا سکتا، اس وقت جو بچے سڑکوں پر ہیں کیا وہ اس اسٹیٹ آف مائنڈ میں ہیں کہ دوبارہ کالج آ سکیں، ایسے لگتا ہے کہ ایک ماہ تک بچے کالجز کا رخ نہیں کریں گے، کیا والدین دوبارہ بچوں کو کالجز بھیج پائیں گے؟ بچوں کے مستقبل کا سوچیں، فوری ایکشن لیں، جہاں طالبات موجود ہیں وہاں مردوں کی موجودگی ممنوع کریں، والدین کا بھروسہ دوبارہ بحال کیجیے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے دلائل سننے کے بعد سماعت ملتوی کر دی۔