آج صبح بستر سے نکلنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا، کچھ موسم کا تقاضا تھا اور کچھ طبیعت پر سُستی چھائی ہوئی تھی، پھر اپنا ہی ایک موٹیویشنل کالم یاد آ گیا جس میں جوانوں کی تن آسانی پر میں نے غا لباً رونے دھونے کی بات کی تھی، اقبال نے اسی موضوع پر ایک شعر بھی کہا ہے۔ دیکھیے کیسا اتفاق ہے کہ اقبال اور میرے خیالات سو سال بعد ایک جیسے ہو گئے ہیں، کچھ برس اور مل گئے تو انشااللہ نیطشے کو بھی دیکھ لیں گے۔ بستر میں لیٹے لیٹے ایک اور موٹیویشنل قول بھی یاد ذہن میں آ گیا کہ Your normal day is someone’s dream so be thankful۔ اِس کے بعد بستر سے نہ نکلنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ لیکن میں تب سے سوچ رہا ہوں کہ ہم میں سے جو لکھاری حضرات دوسروں کو موٹیویٹ کرنے میں لگے رہتے ہیں بسا اوقات خود انہیں موٹیویشن کی بہت ضرورت ہوتی ہے، اور کیوں نہ ہو، ہم بھی انسان ہیں، یہ اور بات ہے کہ تحریروں میں خود کو ولی اللہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں مجھے ترغیبی مقررین (Motivational Speakers) کے لیکچر سننے کا بہت لطف آتا تھا، لیکن اب میں نے وقت ضائع کرنے کے اور بہت سے طریقے ڈھونڈ لئے ہیں، اب میں یوٹیوب پر رانا اعجاز کی مزاحیہ ویڈیوز، نوّے کی دہائی کے گانے اور مولویوں کے درمیان مناظرے دیکھتا ہوں، اِس سے طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہے، کولیسٹرول نہیں بڑھتا اور ایمان بھی تازہ رہتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میں موٹیویشنل اسپیکرز کا ٹھَٹھّا اڑاتا ہوں، حالانکہ ایسی بات نہیں، یہ بہت قابل لوگ ہیں، دنیا جہان سے عجیب و غریب مثالیں تلاش کرکے نوجوانوں کو زندگی میں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں، یہ کوئی معمولی کام نہیں، اگر اِن کے خطبات سے متاثر ہو کر کوئی ایک شخص بھی اپنی کایا کلپ کرلے تو وہ اِس پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ تاہم مجھے چند باتوں سے اختلاف ضرور ہے، مثلا ً اِن موٹیویشنل اسپیکرز کی باتیں سنیں تو یوں لگتا ہے جیسے اُن کے نزدیک کامیابی کوئی شے ہے جو کسی تجوری میں پڑی ہے اور ہر انسان کی زندگی کا مقصد اُس تجوری کا حصول ہونا چاہیے۔ کامیابی یا خوشی کی ایسی تعریف کرنا جس پر سب متفق ہو جائیں ممکن نہیں، اِس لئے دولت مند افراد کی مثالیں دے کر یہ فرض نہیں کیا جا سکتا کہ فقط وہی کامیاب ہیں اور باقی دنیا جھک مار رہی ہے۔ ایک مفروضہ اور ہے جو کم و بیش ہر ترغیبی مقرر نے قائم کر رکھا ہے، گو کہ وہ اِس کا برملا اظہار نہیں کرتے مگر یوں لگتا ہے جیسے اُن کے ذہن کے کسی کونے کھدرے میں یہ بات ضرور ہے کہ چونکہ دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں، (نپولین کا شکریہ جو انہیں یہ بات بتا گیا) اِس لئے اگر کوئی شخص ناکام ہے تو اُس کی اپنی غلطی ہے کہ اُس نے زندگی کی ناقص منصوبہ بندی کی کیونکہ سیلف ہیلپ کی کتابیں تو ہر قسم کے مسائل کے حل بتاتی ہیں۔ میرے نزدیک یہ سوچ بے حد پریشان کُن ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس قسم کا مفروضہ اُن غریب اور پسے ہوئے طبقات کے افراد کی توہین کرنے کے مترادف ہے جو روز جیتے اور روز مرتے ہیں۔ ہم اپنے قفس کے گوشے یعنی Comfort Zone میں آرام سے بیٹھ کر یہ کیسے فرض کر سکتے ہیں کہ جو شخص زندگی کی دوڑ میں ہم سے پیچھے رہ گیا وہ نالائق تھا اور ہم طُرّم خان! زندگی اِس قدر سادہ نہیں کہ چند فارمولوں پر عمل کرکے گزاری جا سکے، اب تک کوئی ایسا کلیہ ایجاد نہیں ہوسکا جو سب لوگوں کیلئےیکساں طور پر سُود مند ہو۔ یہ کارخانوں اور ورکشاپوں میں کام کرنے والے بچے اور شاپنگ مالز میں کھڑی بچیاں جو خالی خالی آنکھوں سے لوگوں کو لاکھوں روپوں کی خریداری کرتے ہوئے دیکھتی ہیں، انہیں کون سی سیلف ہیلپ کی کتاب پڑھائی جائے کہ یہ راکٹ بن جائیں اور ناکامی کے مدار سے باہر نکل کرکامیابی کے سیارے پر اتر جائیں؟ مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم اُس زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے جو یہ افتادگانِ خاک گزارتے ہیں اِس لئے بعض اوقات مجھے موٹیویشنل اسپیکرز کا رویہ توہین آمیز لگتا ہے کیونکہ وہ زندگی میں اُس کامیابی کو پاچکے ہوتے ہیں جس کا وہ پرچار کرتے ہیں، سو اُن کے نزدیک یہی ایک پیمانہ ہے جس پر لوگوں کو پرکھا جانا چاہیے۔
میں پھر کہوں گا کہ اِن تمام باتوں کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ترغیبی مقررین لوگوں کو کامیابی کے گُر بتانا چھوڑ دیں یا اُنہیں متحرک نہ کریں، مدعا صرف اتنا ہے کہ اپنے لیکچرز میں اُن لوگوں کے جذبات کا بھی خیال رکھیں جو اُس لکیر سے نیچے رہتے ہیں جہاںموٹیویشن کے ہِجّے سیکھنے سے پہلے دس گھنٹے تک کسی بھَٹّے میں کام کرنا پڑتا ہے۔ سیلف ہیلپ کی کسی کتاب میں اِس قسم کی زندگی گزارنے کا فارمولہ نہیں ہے۔ مجھے فلموں کی مثالیں دینے کا شوق ہے، اِس موضوع پر دو فلمیں اِس وقت میرے ذہن میں آرہی ہیں، ایک کا نام Maid ہے، یہ چند قسطوں پر مشتمل ایک لڑکی کی کہانی ہے جس کا شوہر اُس پر تشدد کرتا ہے اور وہ ایک رات اپنی بیٹی کو گود میں لے کر گھر سے نکل جاتی ہے جب اُس کی جیب میں فقط اٹھارہ ڈالر ہوتے ہیں۔ اُس کے پاس رہنے کیلئے نہ کوئی ٹھکانہ ہوتا ہے اور نہ ہی کھانے کیلئے پیسے اور خودداری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اُس لڑکے کے گھر بھی رہنا پسند نہیں کرتی جو شادی سے پہلے اُسے چاہتا تھا۔ دوسری فلم وِل اسمتھ کی The Pursuit of Happyness ہے، یہ ایسے شخص کی کہانی ہے جس کی اپنی بیوی سے علیحدگی ہو جاتی ہے، چھوٹی عمر کا بیٹا اُس کے ساتھ ہے اور سر پر چھت نہیں ہے، سو ایک رات انہیں ٹرین اسٹیشن کے ٹوائلٹ میں گزارنی پڑتی ہے۔ اِن دونوں فلموں میں دکھایا گیاہے کہ کس طرح نامساعد اور کٹھن حالات کے باوجود یہ لوگ دن رات انتھک محنت کرکے اپنی ناکامی کو کامیابی میں بدل دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یقیناًایسے لوگ ہیں جنہوں نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی لیکن پھر اپنے ارادے کی مضبوطی اور سخت محنت کی بدولت غربت کے گھن چکر سے خود کو باہر نکال لیا، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے، زیادہ تر لوگ جو غربت کی لکیر سے نیچے پیدا ہوتے ہیں وہ اِس نظام کو شکست دینے کے قابل نہیں ہوتے اور اِس میں اُن کا قطعاً کوئی قصور نہیں ہوتا۔ ہم جو خود کو بہت قابل اور ہونہار سمجھتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ تھوڑی بہت قابلیت ہم میں ہو، لیکن اگر ہم فُٹ پاتھ پر پیدا ہوتے اور وہیں ہماری شادیاں اور بچے ہوتے تو اُس وقت پتا چلتا کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ آبِ گُم میں یوسفی صاحب نے ایسی غربت کا نقشہ کھینچا ہے، میری موٹویشنل اسپیکرز سے درخواست ہے کہ وہ پڑھیں اور پھر بتائیں کہ اُس زندگی کا حصار کیسے توڑا جائے جو موت سے بھی بدتر ہوتی ہے۔