کرس ایشبی ایک وکیل، سابق سیاسی اسپیچ رائٹر اور تجربہ کار انتخابی مہم چلانے والے کی حیثیت سے امریکہ میں مشہور ہیں۔ وہ اپنے مؤکلوں تک سیاسی عمل میں شرکت کیلئے وفاقی، ریاستی اور مقامی قوانین اور ضوابط کے پیچیدہ، کثیرالجہتی اور ہمیشہ بدلتی ہوئی قانونی معلومات کا صحیح ادراک پہنچانے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ دو ہزار سترہ میں، واشنگٹن نے کرس کو مہم اور انتخابی قانون کیلئے ’’اعلیٰ وکیل‘‘کے طور پر درج کیا۔ واشنگٹن، ڈی سی اور ورجینیا سپر لائرز میگزین نے کرس کو ایک ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر شناخت کیا کہ امریکی تماشائی نے اطلاع دی ہے کہ وہ اس قسم کی چیزوں کیلئے ملک کے بہترین لوگوں میں سے ایک ہے۔کرس ایشبی کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ کے ووٹنگ کے نظام کا شمار دنیا کے منصفانہ ترین اور بہترین نظاموں میں ہوتا ہے۔ سو اس نظام پر تمام شہریوں کو یقین اور اعتماد ہونا چاہئے۔‘‘ یعنی وہاں بھی لوگوں کو اپنے ووٹنگ کے نظام پر اعتبار نہیں ہے۔وہاں گزشتہ دو سو سال سے انتخابات ہوتے چلے آر ہے ہیں اور ہمیشہ اسی یقین کے ساتھ لوگوں نے ووٹ کاسٹ کیے کہ انکے ووٹوں کا منصفانہ اور درست انداز میں شمار کیا جاتا ہے ۔ گزشتہ انتخابات میں لوگوں کو ذرا سا شک ہوا تھا اور پتہ نہیں انہوں نے کیاکیا۔اس مرتبہ پھر امریکی عوام اس یقین کے ساتھ ووٹ کاسٹ کریں گے کہ ان کا نمائندہ ہی ملک کا آئندہ صدر ہو گا۔ اس طریقہ کار پر یقین کی بنیادی وجہ انتخابی نگران ہیں۔ یہ انتخابی نگران مقامی رضا کار ہوتے ہیں ۔انہیں اس کام کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ یہ رضاکار ووٹروں کے شناخت نامے دیکھنے سے لے کرووٹ کاسٹ کرنے تک ہر عمل کی نگرانی کرتے ہیں ۔اسکے علاوہ سیاسی پارٹیوں کے نمائندے بھی وہاں موجود رہتے ہیںجیسا کہ پاکستان میں بھی ہر امیدوار کا نمائندہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہوتا ہے، پولنگ سٹیشن کھلے مقامات پر ہوتے ہیں اور ان کی عمدہ طریقے سے نگرانی کی جاتی ہے،رضاکار بہت بڑی رکاوٹیں بن کر کھڑے ہوتے ہیں ۔پچاس ریاستوں میں ایک لاکھ پولنگ اسٹیشن اورایک لاکھ پولنگ اسٹیشن کیلئے تقریباً پچاس لاکھ رضاکار ۔پھر یہ الیکشن کمیونٹی سنٹرز، لائبریریز اور سکولزکے بڑے بڑے ہالوں جیسی اوپن جگہ پر ہوتے ہیں۔ انتخابی مبصرین کون ہونگے ،یہ فیصلے سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں۔ امریکی حکومت انٹرنیشنل مبصرین کو بھی انتخابات کی نگرانی کیلئے مدعو کرتی ہے مگر وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ اتنے حفاظتی انتظامات کے بعد اگر دو مرتبہ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ہو سکتا ہے تو الیکشن میں اسے شکست دلانے کیلئے کیسے دھاندلی کرانے کی کوشش نہیں کی جا ئے گی ۔ دوہزار دو میں امریکی حکومت نے ایک آزاد ایجنسی بنائی ۔جس کا مقصد انتخابات میں حکومت کی مدد کرنا تھاتاکہ مکمل طور پرمنصفانہ انتخابات ہو سکیں ۔اسے الیکشن اسسٹنس کمیشن کہا جاتا ہے ۔اس کے معروف ممبرمس ہِکس نےکہا ہے کہ ہمارا انتخابی نظام ایک مرکز گریز نظام ہے ایک مرکز گریز نظام کی موجودگی میں دھاندلی کیلئے لوگوں کی ایک فوج درکار ہوتی ہےجو ممکن نہیں ۔کئی امریکی یونیورسٹیوں پر اس پر دوسالہ تحقیقی کام کرایاگیا کہ کیا انتخاب میں دھاندلی ہوئی یا نہیں مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔
بے شک دھاندلی بہت مشکل عمل ہے۔امریکہ میں کہا ں ہو نی ہے۔پاکستان میں بھی آسانی سے ممکن نہیں رہی وگرنہ فارم سینتالیس کا داغ ماتھے پر سجانے کی کسے ضرورت تھی ۔سو ٹرمپ کی فتح یقینی دکھائی دے رہی ہے اور اسکےانتخابی کیپ پر پینتالیس بھی لکھا ہے اور سینتالیس بھی ۔یعنی وہ اعداد کے گورگھ دھندے کا بھی پورا ماہر ہے ۔ اوہائیو، فلوریڈا اور شمالی کیرولینا پچھلے دو انتخابوں میں ٹرمپ کے ساتھ تھے اس نےاس وقت مخالف امیدوار کی ہر طرح کی فائر وال کو توڑ دیا ہے۔ڈیموکریٹ کا زیادہ تر انحصار مڈویسٹ پر تھا ۔ یہ وہ ریاستیں تھیں جو دہائیوں سے ڈیموکریٹس کو ووٹ دیتی آرہی تھیں ،وہاں سیاہ فام اور محنت کش طبقے کے سفید فام ووٹروں کی انہیں حمایت حاصل تھی۔
انہوں نے ٹرمپ میں اپنی آواز سنی اور ٹرمپ ان کی امیدوں پر پورا اترا ۔ایک بار پھر فیصلہ کن ووٹ انہی کا ہے۔لوگوں میں ٹرمپ کی پسندیدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عوامی صدر رہا ہے اور اس سے پہلے بھی عوامی آدمی تھا۔بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ بالکل ایسےٹکرایا جیسے امریکی عوام چاہتے تھے۔
پھر اس وقت اس پر دو قاتلانہ حملے کرا کے لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ ٹرمپ ہی فتح یاب ہو رہا ہےاور ہم کسی عوامی طریقہ سے نہیں پاکستانی طریقے سے ناک آئوٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔یوں عوامی ہمدردیاں اس کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہیں اوراسے روکنے کیلئے کوئی راستہ نہیں مل رہا ۔امریکی سپریم کورٹ بھی اس کے ساتھ کھڑی ہے۔تقریباً زیادہ تر تجزیے یہی کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ ہی آئندہ صدر ہوگا اور ٹرمپ صدر بن گیا تو پاکستان میں کیا ہوگا یہ سوچنا اب آپ کا کام ہے۔