اس سے قبل کہ میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے سوالات کا آغاز کرتا ، ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے ہی سوال کرلیا کہ آپ پاکستان کے کس چینل سے تعلق رکھتے ہیں میں نے بڑے فخر سے اپنے چینل کا نام بتایا ساتھ یہ بھی بتایا کہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا نیوز چینل ہے لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک میرے جواب سے مطمئن نہ ہوئے انھوں نے کہا کہ اپنے چینل والوں سے کہیں کہ آپ کو کیمرے تو نئے ماڈل کے فراہم کریں، میں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے ٹی وی کیلئے یہ کیمرہ بہترین ہے اور سارے چینل ہی یہی کیمرہ استعمال کرتے ہیں، ڈاکٹر صاحب پھر بھی مطمئن نہ ہوئے انھوں نے کہا کہ میرے پروگرام کی ریکارڈنگ اٹھارہ کیمروں سے ہوتی ہے اور میں دنیا کے مہنگے اور جدید ترین کیمرے استعمال کرتا ہوں لہٰذا میرے کیمروں کے سامنے آپکا کیمرہ بہت معمولی ہے ،میں نے سر تسلیم خم کیا اور کہا کہ آپ کا یہ پیغام اپنے چینل کی انتظامیہ تک پہنچادوں گا ۔ حقیقت یہ تھی کہ میں اس وقت اپنے آپ کو بڑ اخوش نصیب تصور کررہا تھا کیونکہ میرے سامنے عالم اسلام کی بڑی قابل شخصیت ڈاکٹر ذاکر نائیک تشریف فرما تھے لیکن ان کے کیمروں کے حوالے سے ریمارکس نے میرا اعتماد مجروح کردیا کیونکہ جس ہال میں یہ انٹرویو ہورہا تھا وہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ چند سوالوں کے بعد ہی میں نے ڈاکٹر صاحب سے سوال کیا کہ بھارت میں گائے کے گوشت کو لیکر انتہا پسندی عروج پر ہے ہندو مسلمانوں کو صرف اس لیے قتل کردیتے ہیں کہ شاید انھوں نے گائے کا گوشت پکا یا ہو یا کھایا ہو، میں سمجھ رہا تھا کہ اس سوال پر شاید ڈاکٹر صاحب بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے لیکن انھوں نے کہا کہ اسلام میں گائے کا گوشت کھانا فرض نہیں ہے لہٰذا مسلمانوں کو بھارتی قانون کا احترام کرتے ہوئے گائے کا گوشت نہیں کھانا چاہیے، میں اب بھی مطمئن نہیں تھا لہٰذا میں نے پھر سوال کیا کہ آپ پر بھارت کے کئی حصوں میں جانے پر پابندی ہے اس پر آپ کی کیا رائے ہے جس کے جواب میں بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا ، شاید انکی کوئی مجبوری ہوگی ، بہرحال میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ پاکستان میں آپ کے بہت چاہنے والے موجود ہیں آپ کب پاکستان تشریف لائیں گے ، جس پر انھوں نے کہا وہ پہلے بھی پاکستان جاچکے ہیں لیکن شہرت حاصل کرنے کے بعد وہ پاکستان نہیں جاسکے تاہم جلد وہ پاکستان کا دورہ کریں گے ، یہ انٹرویو ٹوکیو میں ڈاکٹر ذاکر نائیک پر بھارتی حکومت کی جانب سے پابندیوں سے پہلے کیا گیا تھا ، اس انٹرویو کے کچھ عرصے بعد ہی ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بھارتی حکومت نے دہشت گرد قرار دے کر انکی تمام جائیداد پر قبضہ کرلیا، جس میں وہ تمام اٹھارہ کیمرے بھی شامل تھے جن کی خریداری پر ڈاکٹر صاحب فخر کیا کرتے تھے، ڈاکٹر ذاکر نائیک کی علمیت اور دین کی دعوت کا کوئی ثانی نہیں ،اور ہم جیسے گناہ گار مسلمان کو اس بات کا بھی ڈر رہتا ہے کہ اگر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے کسی دنیا وی کام پر تنقید کردی تو آخرت میں ہماری ہی پکڑ نہ ہوجائے، لیکن پھر بھی پاکستان میں جو دو تین کام ڈاکٹر ذاکر نائیک سے سرزد ہوئے اس پر پوری پاکستانی قوم کو تکلیف پہنچی ہے، سب سے پہلے ملائشیا میں قومی ایئرلائن کے کنٹری مینجر سے آٹھ سو کلو سامان بغیر اضافی وزن کی فیس ادا کیے پاکستان لے جانے کی ضد کرنا اور اس کی جانب سے اپنی حد میں رہتے ہوئے آدھے پیسوں کی چھوٹ دینا ایک اچھے اور فرض شناس افسر کی نشانی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب نے پوری دنیا کے سامنے اس کا قصہ سناکر اسے رسوا کرنے کی کوشش کی، پھر حکومت پاکستان کی کئی معاملوں میں برائی کرکے بھارتی حکومت اور قوم کے سامنے تو اپنے آپ کو محب وطن ثابت کردیا لیکن یہ آداب مہمانی کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس سے لاکھوں پاکستانیوں کے دل بھی ٹوٹے ،پھر خواتین کے بارے میں ان کے کئی ریمارکس نے خواتین کی بھی دل شکنی کی، کراچی میں لکی مروت سے تعلق رکھنے والی ایک پٹھان خاتون جو شاید اردو ٹھیک سے نہیں جانتی تھیں مگر ان کا سوال ہر سننے والے کو سمجھ آگیا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس خاتون کو ایسا ڈانٹا کہ وہ شاید آئند ہ کبھی کسی سے سوال کرنے کی ہمت نہیں کر پائیں۔ ڈاکٹر صاحب کی دینی خدمات سے کسی کو انکار نہیں لیکن ان کو اپنے انداز میں نرمی پیدا کرنا ہوگی، محفل میں ان سے گفتگو کرتے ہوئے کسی کو اپنی بے عزتی محسوس نہ ہو، پھر جس ملک کے اور جس قوم کے مہمان ہیں انھیں عزت دینا ہوگی، بھارت سے اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کیلئے پاکستان اور پاکستانیوں کی بےتوقیری آپ کے کو زیب نہیں دیتی، ڈاکٹر صاحب کے دورہ پاکستان میں جہاں کروڑوں لوگ خوش ہوئے ہیں وہیں لاکھوں کے دل بھی ٹوٹے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صرف دل جوڑنے والا بنائے دل توڑنے والا نہیں۔