• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
اس معاشرے میں جینے کا حق ہر جاندار کو ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو ایسا ہی حکم معصوم چڑیا جیسی کمزور بیٹیوں کیلئے بھی ہے۔ وہ بھی تو کائنات کا حسن ہیں۔ دنیا کی اس عظیم رحمت کو ہر قوم میں یکساں اتارا جاتا ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ بیٹیاں سبھی کی سانجھی ہوتی ہیں۔مسلمان، سکھ، عیسائی، ہندو اور دیگر اقوام کی بیٹیاں سبھی قابل تکریم ہیں۔ اپنی بیٹیوں سے پیار کرنے والے امیر غریب، نیک و گنہگار، اس قوم کی یا اس قوم کی نہیں کرتے! بلکہ ہر بیٹی کو بیٹی ہی سمجھتے ہیں۔ یہ رحمت ابر کرم کی طرح ہر آنگن میں برستی ہے۔ اسے مانند رحمت و برکت ہی جانا جاتا ہے۔ یہ وہی رحمت ہے جسے ثواب کی نیت سے پال و پرورش کرکے ذمہ داری پوری ہونے تک سینچا جاتا ہے۔ یہ وہی بیٹیاں ہیں کہ جنہیں معصوم سی چڑیاں سمجھ کر انہیں انسانی درندہ نما بھیڑیوں سے بچایا جاتا ہے کہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری ان گھرانوں کے مردوں پر ہوتی ہے۔ جس قدر بھی ان معصوم دل رحمتوں کو سنبھال کر رکھئے، مگر اس ڈیجیٹل اور نہایت ترقی یافتہ جدید دور میں بھی ان کا باہر نکلنا دشوار ہے بلکہ نہایت پرانے دور سے بھی برا ہے۔ انہیں اسلام میں وہ مقام حاصل ہے عزت و احترام کا جو کسی اور مذہب میں حاصل نہیں۔ اب وہ سب تعلیمات بھولائی جاچکی ہیں نام کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر خاص و عام نے! انسانوں کے بھیس میں چھپے درندوں نے معصوم بیٹیوں کیلئے خوف کا ماحول طاری کر رکھا ہے کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں۔ مدرسوں میں، اسکول و کالج اور یونیورسٹی میں بھی یہ بیٹیاں محفوظ نہیں۔ درندوں نے کہاں کہاں ان کے تقدس کو پامال نہیں کیا۔ ان کے کانوں کی بالیاں نوچنا اور ہاتھوں کی چوڑیاں کھینچنا تو کچھ بھی نہیں ان کے تو جسم کو نوچا جاتا ہے، جبلت میں ان کے جسم کے چیتھڑے اور کھال ادھیڑ دی جاتی ہے۔ ان کی عزت لوٹنے کے بعد ان کے گلےگھونٹ دیئے جاتے ہیں، انہیں جان سے بھی گزرنا پڑتا ہے مگر مرنے سے پہلے کئی بار عزت تار تار کرکے انہیں مارا جاتا ہے۔ ان کے وجود کو مسلا جاتا ہے۔ اچھا ہے اماں حوا کی یہ نسل عصمت دری کے بعد مار دی جاتی ہے، ورنہ جہان بھر انہیں طعنوں سے مار دیتا ہے ان کے زندہ رہنے کے بھید بھاؤ کا حساب کون بار بار دے گا۔ ان کے حقوق پامال ہونے سے لےکر ان کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کبھی ان کے حق میں نہیں رہے انہیں گرایا گیا تو گرایا ہی جاتا ہے اور پھر کہیں انہیں معاشرے میں کھڑا ہونے کو تعلیم دلائی جائے تو معاشرے ہی کے درندے انہیں توڑ کھاتے ہیں ۔جانوروں سے بدتر سلوک روا رکھا جا رہا ہے، بے رحمی کا حال یہ ہے کہ درندے انہیں بے رحمی سے وحشی درندے بن کر لوٹتے ہیں مگر سراغ بھی نہیں چھوڑا جاتا اپنے گھناؤنے جرم کا! ہوا میں تیر چلاتے رہو تمام کے تمام ثبوت ہوا میں غبار بن کر اڑ جاتے ہیں لڑکی کا وجود بھی ہوا میں معلق رہتا ہے۔ کبھی وہ ایلین بن کر آسمان میں گم ہوجاتا ہے اور کہیں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ سرے سے کہیں کوئی جرم ہوا ہی نہیں۔ جدید دور کے کیمرے اور عینی شواہد کچھ بھی اور کہیں بھی گواہی نہیں دیتے کہ ایسا کچھ ہوا ہے۔ خواتین کے کتنے ہی دن منائے جاتے ہیں، ان کے رتبہ و مقام کا خیال رکھا جاتا ہے۔ مدرز ڈے، سسٹرز ڈے، وومنز ڈے اور بیٹی کا دن بھی منایا جاتا ہے مگر ان کی جان خطرے میں ڈال کر ان کیلئے آواز اٹھانا اور پھر آواز دبا لینا یہ تو انصاف ان کے ساتھ نہیں ہے۔ ایشیا میں اور خاص طور پر بھارت اور پاکستان میں تو عورت کو بعض درندےایسی بری طرح نوچتےہیں کہ جیسے گدھ جنگل میں پڑی لاش کو کھاتے ہیں۔ دونوں ممالک میں کیس مختلف نوعیت کے بالکل بھی نہیں ہیں۔ ان کے یہاں بھی ایک ڈاکٹر کے ساتھ کلکتہ میں جو ہوا وہ ریپ جس بری طرح اس لڑکی کے ساتھ کیا گیا وہاں اس کےلئے بھی کئی لاکھ ڈاکٹرز نے ہڑتال تک کی، وہاں ستمبر میں یہ سب ہوا اور ہمارے یہاں اکتوبر میں وہ ہی صورت حال سامنے آئی کہ ریپ ہوا اور ہنگامے شروع! مگر فرق صرف یہ کہ وہاں ڈاکٹر کی باقاعدہ پہچان ہوئی مگر ہمارے یہاں لڑکی کی مسلی ہوئی لاش بھی نہ مل سکی۔ بلکہ انکار ہوگیا کہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے پیش آیا ہی نہیں۔ ایسے مقدس پیشوں میں جنسی ہراسانی کے قصے بھی عام ہیں پر اس کے لئے بھی آواز کون اٹھائے؟ ان تمام واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے، عصمت دری کے عالمی دن کی شدید ضرورت ہے تاکہ باقاعدہ احتجاج تو ہوا کرے کہ عالمی طور پر معلوم ہو سکے ان جبلت زدہ ذہنوں کی اصلیت اور کرتوت سامنے آئے اور پھر شاید انہیں سزا کیلئے بھی فوری زور دیا جائے۔ ایک بات نوٹ ہوئی ہے کہ ایسے شیطانی واقعات پر مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید احتجاج کبھی نہ ہوا کہ عبرت ناک سزا بھی مل سکے مگر مذہبی ٹھیکیدار عورت کو شاید سیپ کا موتی سمجھتے ہیں کہ اندر رہے تو صاف اور باہر نکلے تو مٹی میں اٹ جائے۔ اس کائنات کی پیاری سی مخلوق کے بارے میں شاعر نے خوب کہا ہے کہ:
دیکھ کر شاعر نے اس کو نکتۂ حکمت کہا
اور بے سوچے زمانہ نے اسے عورت کہا
یورپ سے سے مزید