• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر کے دستخط کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم نافذ، چیف جسٹس کے تقرر کا طریقہ کار سامنے آ گیا


26 ویں آئینی ترمیم پر صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے دستخط کر دیے۔

26 ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ 

گزٹ نوٹیفکیشن صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد جاری کیا گیا ہے۔

آئینی ترمیم پر دستخط کی تقریب میں پارلیمنٹرینز نے بھی شرکت کی۔

آئینی ترمیم بل 2024ء ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا

آئینی ترمیم بل 2024ء ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا، گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم فوری طور پر نافذ العمل ہو گئی۔

ترمیم کے بعد سب سے پہلے خصوصی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا، آرٹیکل 175 اے کی شق 3 کے تحت کمیٹی نئے چیف جسٹس کا تقرر عمل میں لائے گی۔

چیف جسٹس پاکستان آرٹیکل 175 اے کی ذیلی شق 3 کے تحت 3 سینئر ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے، پارلیمانی کمیٹی 3 ججز میں سے ایک جج کا تقرر کرے گی۔

خصوصی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس پاکستان کا تقرر کر کے نام وزیرِ اعظم کو ارسال کرے گی، وزیرِ اعظم چیف جسٹس کے تقرر کی ایڈوائس صدر کو بھجوائیں گے۔

26 ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس کی تقرری 3 دن قبل ہو گی، چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نام بھیجنے کے لیے 35 گھنٹوں کا وقت باقی ہے۔

چیف جسٹس 22 اکتوبر رات 12 بجے تک 3 نام آئینی کمیٹی کو بھیجنے کے پابند ہیں۔

ترمیم کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے ہوگا، نامزد جج کے انکار کی صورت میں بقیہ 3 سینئر ججز میں سے کسی کو نامزد کیا جا سکے گا، پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان میں قومی اسمبلی کے 8 اور سینیٹ کے 4 ارکان ہوں گے، کمیٹی دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل نامزدگی کرے گی۔

ہائی کورٹس میں بھی آئینی بینچ ہو گا، ہائی کورٹ کے جج کے لیے پاکستانی شہری اور کم از کم 40 سال کا ہونا لازمی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس پاکستان، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے 2 دو سینئر جج ہوں گے، کونسل میں اختلاف پر اکثریت کا فیصلہ حاوی ہو گا، کونسل کی انکوائری کے بعد جج کی برطرفی کے لیے صدر کو رپورٹ دی جائے گی۔

آئینی ترمیم کے مطابق کمیشن میں وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، سپریم کورٹ کا 15 سال تجربے والا وکیل شامل ہو گا، جوڈیشل کمیشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے حکومت اور اپوزیشن کے دو، دو ارکان ہوں گے، کمیشن میں ایک خاتون یا غیرمسلم رکن بھی ہو گا جو سینیٹ میں بطور ٹیکنوکریٹ تقرر کا اہل ہو۔

قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹ، بلدیاتی حکومتوں کے الیکشن کے لیے درکار رقم چارجڈ اخراجات میں ہو گی، کمیشن یا کمیٹی کے فیصلے کے خلاف کوئی سوال نہیں کیا جا سکے گا، کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا سالانہ جائزہ لے گا، ناقص کارکردگی پر جج کو بہتری کے لیے مہلت دی جائے گی۔

سپریم کورٹ کے جج کے لیے 5 سال ہائی کورٹ کا جج ہونا یا 15سال اعلیٰ عدالتوں کا و کیل ہونا لازم ہو گا، سپریم کورٹ ازخود نوٹس میں کسی درخواست کے مندرجات سے باہر کوئی حکم یا ہدایت نہیں دے گی، سپریم کورٹ کسی کیس یا اپیل کو دوسری ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ منتقل کر سکے گی۔

آئینی ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں آئینی بینچ ہو گا جس میں سپریم کورٹ کے جج شامل ہوں گے، آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز ہوں گے، سینئر ترین جج آئینی بینچ کا پریزائیڈنگ جج ہو گا، آئینی بینچ کے سوا کوئی بینچ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار، آئین کی تشریح کا معاملہ نہیں دیکھے گا، آئینی بینچ میں کم از کم 5 ججز ہوں گے، متعلقہ تمام درخواستیں یا اپیلیں آئینی بینچ کو منتقل کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ سینیٹ سے منظوری کے بعد گزشتہ شب قومی اسمبلی کے اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی گئی۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے اعلان کیا کہ 225 اراکین نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ آئینی ترمیم کی مخالفت میں 12 ووٹ دیے گئے۔

ووٹنگ کے دوران تحریک انصاف کے ارکان نے قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں 6 آزاد ارکان نے بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ 

آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والوں میں شاہ محمود کے بھانجے ظہور قریشی، عثمان علی، مبارک زیب اورنگزیب کھچی اور ق لیگ کے منحرف چوہدری الیاس بھی شامل تھے۔ 

قومی خبریں سے مزید