• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر ترامیم پر حکومت، اتحادی کامیاب، چیف جسٹس کا انتخاب 3سینئر ججز میں سے ہوگا، وزیراعظم پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر نام صدر مملکت کو بھیجیں گے، یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ

اسلام آباد (نمائندہ جنگ /ایجنسیاں) حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم منظور کرانے میں بالآخر کامیاب ہوگئیں‘ سینیٹ نے اتوار کو 65 ووٹوں کی دو تہائی اکثریت سے26 ویں آئینی ترمیم منظور کرلی جبکہ مخالفت میں 4 ووٹ آئے‘ حکومت کے 58، جمعیت علمائے اسلام کے 5 اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل )کے دو ارکان نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیا ۔ ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبلیو ایم کے ارکان ایوان سے چلے گئے۔ بعد ازاں سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تمام 22 شقوں کی مرحلہ وار منظوری دی۔ 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلقہ اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سود کے خاتمے کی ترمیم پیش کی، دوران اجلاس آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران یکم جنوری 2028 تک سود کو مکمل طور پر ختم کرنے کی شق متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ایوان بالا کے بعد پیرکی علی الصبح ایوان زیریں نے بھی آئینی ترمیمی بل کی منظوری دیدی ‘اسپیکر ایازصادق کی زیرصدارت اتوارکو رات گئے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا اور نوید قمر نے ایوان کی معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی جسے ایوان نے منظورکرلیا۔تحریک منظور ہونے کے بعد 20 اور 21 اکتوبر کو معمول کی کارروائی معطل کردی گئی۔اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کی۔ترمیم پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 225ارکان نے ووٹ دیئے ‘12نے ترمیم پیش کرنے کی مخالفت کی ‘ بعد ازاں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری لی گئی جس میں 225ارکان یعنی دوتہائی اکثریت نے ترمیمی بل کی حمایت میں ووٹ دیا جبکہ 4ارکان نے بل کی مخالفت کی‘اس موقع پر پی ٹی آئی ارکان نے ایوان سے واک آؤٹ کیا ۔ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائےگا‘جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ میں آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تقرر کرے گا۔سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بنچ تشکیل دیئے جائیں گے ‘ چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنے گی‘آئینی بینچز میں تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے اور آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔ پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے 3سینئرترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی‘کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا۔کمیٹی کی سفارش پرچیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، کسی جج کے انکارکی صورت میں اگلے سینئرترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا‘ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت 3 سال ہوگی تاہم چیف جسٹس 65 سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے‘ترمیم کے تحت چیف جسٹس سے سومو نوٹس لینے کا اختیار ختم جبکہ ججز کی ترقی کارکردگی کی بنیاد پر ہوگی ‘ترمیم کے مطابق چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد نیا چیف الیکشن کمشنر تعینات ہونے تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے ‘آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 4 میں ترمیم کے تحت صدر مملکت‘ کابینہ اور وزیر اعظم کی طرف سے منظور کردہ ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹربیونلزمیں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا‘آرٹیکل 111 میں تجویز کردہ ترمیم کے تحت ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات پر صوبائی اسمبلی میں بات کرنے کے مجاز ہوں گے‘عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا۔آرٹیکل 179 میں ترمیم کے تحت چیف جسٹس پٹیشن کے متعلق ہی نوٹس جاری کرسکتا ہے۔قبل ازیں وفاقی کا بینہ نے 26ویں آئینی ترمیم کے مسودہ کی منظوری دیدی‘وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس اتوار کو اسلام آباد میں ہوا۔اجلاس میں وزیرِ قانون و انصاف سنیٹر اعظم نذیر تارڑنے 26 ویں آئینی ترمیم پر دوبارہ تفصیلی بریفنگ دی۔ وفاقی کابینہ نے حکومتی اتحادی جماعتوں بشمول پیپلز پارٹی کا 26 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ منظور کر لیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور ملکی حالات کی بہتری کیلئے کابینہ نے بہترین فیصلہ کیا‘انہوں نےپوری قوم کو 26 ویں آئینی ترمیم کی کابینہ سے منظوری کی مبارکباد دی ۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ کابینہ نے ملکی ترقی اور عوامی فلاح کے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ملکی وسیع تر مفاد میں فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے ملکی معیشت کے استحکام کے بعد ملک کے آئینی استحکام اور قانون کی حکمرانی کیلئے ایک سنگ میل عبور ہوا۔ عوام سے کئے گئے اپنے وعدے کے مطابق ملک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کیلئے محنت جاری رکھیں گے۔ تفصیلات کے مطابق ایوان بالا نے 26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سےمنظور کر لی۔اتوار کو ایوان بالا کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترمیم کابل پیش کرنے کی تحریک پیش کی۔تحریک کی منظوری کے بعد انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم کابل منظورِی کیلئے ایوان میں پیش کرنے کی تحریک پیش کی۔چیئرمین سینیٹ نے تحریک پرووٹنگ کے دوران اس کے حامی اور مخالف ارکان کو کھڑا کر کے ان کی گنتی کرائی ۔ووٹنگ سے قبل تمام گیلریاں خالی کرالی گئیں جبکہ ہال کے دروازے بند کر دئیے گئے ۔گنتی کے دوران ترمیم کی تحریک کی حمایت میں 65ووٹ جبکہ مخالفت میں 4ووٹ پڑے۔تحریک کی منظوری کے بعد چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے 26ویں آئینی ترمیم شق وار منظوری کے لیے ایوان میں پیش کیں جن کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دی،جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ترامیم ایوان میں پیش کیں،جس کی وزیر قانون نے حمایت کی جس پر ایوان نے ان ترامیم کو منظور کرلیا، آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران کسی رکن نے قانون سازی کی مخالفت نہیں کی۔بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے بل کی شق وار منظوری کے بعد بل منظوری کیلئے ایوان میں پیش کیا۔بل پر ووٹنگ سے قبل ہال کے دروازے بند کر دئیے گئے۔چیئرمین سینٹ نے دومنٹ گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کی ،جس کے بعد ہال کے دروازے بند کر دئیے گئے ۔چیئرمین سینیٹ نے آئینی ترمیم کے حامی ارکان کو دائیں لابی اور مخالف ارکان کو بائیں لابی میں جانے اور رجسٹرڈ پر اپنا اندراج کرانے کی ہدایت کی۔اس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے گنتی کرانے کی ہدایت کی۔ترمیم کی حمایت میں 65اور مخالفت میں 4ووٹ پڑے،اس طرح ایوان نے 26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی۔مجوزہ آئینی ترمیم میں آرٹیکل 215 میں ترمیم کی تجویز ہے، جس کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل 13 ممبران پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے، 4 سینیئر ترین ججز اور ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج کے علاوہ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے سینئر وکیل کمیشن کا حصہ ہوں گے۔پتا چلا ہے کہ ججز کی تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں 4 اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے، کمیشن میں دو اراکین قومی اسمبلی اور دو سینیٹ سے لیے ہوں گے، دو حکومت اور دو اپوزیشن ارکان کمیٹی کا حصہ بنیں گے، حکومت کی طرف سے ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیراعظم تجویز کریں گے، اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر دیں گے، حکومت نے ججز تقرری آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی تجویز دی جس کے تحت جوڈیشل کمیشن جو پہلے صرف تقرری کرتا تھا، اب ہائی کورٹ اور شریعت کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے سکے گا۔

اہم خبریں سے مزید