• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی الیکشن پر کالم کیا شائع ہوا، امریکا میں بسنے والے بہت سے لوگوں کا موقف جاننے کا موقع مل گیا، خاص طور پر ایسے لوگوں کا موقف بھی سامنے آیا جو ٹرمپ کو امریکا کیلئے زہر قاتل سمجھتے ہیں، واشنگٹن ڈی سی سے زنیرہ احمد لکھتی ہیں کہ’’ ٹرمپ کے مخالفین کا یہ خیال ہے کہ ٹرمپ کے آنے کا مطلب امیگرنٹس کی شامت، ٹیرف ٹیکس سے 20 فیصد مہنگائی عوام پر پڑے گی، مسلمان ممالک پر پابندیوں میں اضافہ اور دیگر بہت سے اقدامات، آپ جانتے ہیں کہ امریکی انتخابات میں صدر عوامی ووٹوں سے نہیں بلکہ الیکٹورل کالج کے ووٹوں سے جیتتا ہے۔ہلیری کلنٹن کے پچیس لاکھ ووٹ ٹرمپ سے زیادہ تھے، الگور کے 5لاکھ ووٹ بش سے زیادہ تھے لیکن کیا ہوا؟ دونوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دہقانوں کا بنایا ہوا یہ اصول جو امریکی آئین کا حصہ ہے اسے متنازع تو کہا جاتا ہے لیکن اسے ختم کرنے کی کوئی بات نہیں ہوتی کیونکہ یہی ایک بہترین طریقہ ہے یہاں کے پالیسی بنانے والوں یا اسٹیبلشمنٹ کا انتخابات کو کنٹرول کرنے کا‘‘۔ ٹرمپ کے مخالفین کئی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، زنیرہ احمد نے امیگرنٹس کی شامت کا لفظ استعمال کیا ، یہ موقف دراصل بہت سے غیر امریکیوں کا ہے جو دوسرے ممالک سے غیر قانونی طریقوں سے امریکا میں داخل ہوئے، ٹرمپ سیدھی سیدھی قانون کی بات کرتا ہے اور قانون کی حکمرانی سے کسے اختلاف ہو سکتا ہے؟ آپ کیلئے یہ بات انتہائی حیران کن ہو گی کہ کئی پاکستانی ڈنکی لگا کر آج بھی امریکا میں داخل ہو رہے ہیں، کیا یہ کوئی درست عمل ہے؟ آپ ایک غیر قانونی عمل کو درست نہیں کہہ سکتے تو ٹرمپ اس کو درست کیسے کہہ سکتا ہے؟ ایسے لاکھوں افراد امریکی معیشت پر بوجھ ہیں جو غیر قانونی طریقے سے امریکا میں داخل ہوئے، ویسے تو غیر قانونی قیام کرنے والے لوگوں کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ٹرمپ کی طبیعت بڑی کھلی ڈھلی ہے، ہو سکتا ہے وہ اپنے ایک ہی فقرے سے غیر قانونی طور پر آباد لوگوں کے دل جیت لے اور وہ فقرہ یہ ہو سکتا ہے،’’ اب تک جو امریکا میں آ گئے وہ قبول ہیں مگر آئندہ ہمیں امریکا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کو روکنا ہو گا‘‘۔ امریکی جانتے ہیں کہ اس سلسلے میں ٹرمپ میکسیکنز کے خلاف ہے، اسی لئے میرا موقف ہے کہ حقیقی امریکیوں کی بڑی تعداد ٹرمپ کو پسند کرتی ہے، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ٹرمپ کے آنے سے ٹیرف ٹیکس سے 20 فیصد مہنگائی کا بوجھ عوام پر پڑے گا، اس سلسلے میں عوام کو زیادہ تنگی کا سامنا انفلیشن کے باعث کرنا پڑا، لوگوں کی اس تکلیف میں اضافہ بائیڈن کے دور میں ہوا، بائیڈن حکومت کے ہائی انٹرسٹ ریٹ کے باعث مہنگائی بہت بڑھی اور حکومت اسے کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آئی، انفلیشن اور ہائی انٹرسٹ ریٹ کو قابو کرنا بائیڈن انتظامیہ کا کام تھا، جس میں وہ بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ ٹرمپ کے آنے سے مسلمان دنیا مشکلات کا شکار ہو گی، میرا خیال ہے ایسا نہیں ہو گا، بائیڈن کے دور میں فلسطینیوں کا حال آپ کے سامنے ہے، ٹرمپ تو جنگوں کی مخالفت کرتا ہے، ایک شخص جنگوں کی مخالفت کرتا ہو اور دوسرا جنگیں مسلط کرتا ہو تو ان میں سے یقیناً وہ آدمی بہتر ہے جو جنگوں سے گریز کا قائل ہو۔ زنیرہ احمد نے الیکٹورل کالج کی بات کی، ہلیری کلنٹن اور الگور کی شکست کے حوالے دیئے، دہقانوں کے بنائے ہوئے انتخابی اصول پر تنقید کی، میرا موقف مختلف ہے، میرا خیال ہے کہ امریکی کسانوں نے اپنے ملک کیلئےدرست انتخابی اصول بنائے کیونکہ کسان اپنی دھرتی سے بے وفائی نہیں کر سکتا، انہی سخت گیر اصولوں کے باعث میری یہ رائے ہے کہ امریکی کسی خاتون کو اپنا صدر نہیں بننے دیں گے، فی الحال تو کملا ہیرس کے چاہنے والوں کے دعوؤں کا سفر جاری ہے، دعوے پر فریب بھی ہو سکتے ہیں۔ بقول فرحت عباس شاہ

شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا

جسکے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد

لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج

کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد

تازہ ترین