• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎آئین کی 26ویں ترمیم بالآخر منظور ہوگئی ہے اور اس کی مطابقت میں نئے چیف جج کی تقرری بھی ہو گئی ہے۔اس ترمیم کے مطابق چیف جسٹس کی تقرری محض سنیارٹی نہیں، سنیارٹی کے ساتھ میرٹ کی بنیاد پر ہوگی، اس سلسلے میں 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں متناسب نمائندگی کے تحت قومی اسمبلی سے 8 اور سینیٹ سے 4 ممبران لیے گئے ہیں ۔اس میں حکومت پلس حکومتی اتحادیوں کے، اپوزیشن کے نمائندے بھی شامل کیےگئے ہیں اور یہ کمیٹی سادہ اکثریت سے نہیں ٹو تھرڈ میجارٹی سے اپنی سفارشات پرائم منسٹر کو بھیجے گی، چیف جسٹس کی مدت تین سال یا عمر کی حد 65 سال ہوگی، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں آئینی بنچ بنیں گے جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ میں آئینی بینچز اور ججز کا تعین کرے گا سوموٹو کا اختیار بھی چیف کی بجائے ان بینچز کو ہوگا عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہ ہوگا اس آئینی ترمیم پر اپوزیشن پی ٹی آئی کی طرف سے شدید تنقید ہو رہی ہے یہ کہ اب حکومت من مانے فیصلے کروا سکے گی، ججز اپنی تقرری کیلئے حکومت کی طرف دیکھیں گے، آزاد جوڈیشری کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ جسٹس منصور کے بقول سپریم کورٹ میں روز یہ سوال اٹھے گا کہ یہ کیس عام بینچ سنے گا یا آئینی بینچ؟ پی ٹی آئی نے اسے جوڈیشری کی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیتے ہوئے اپنے وکلاء کی مدد سے احتجاج کا عندیہ ظاہر کیا ہے دوسری طرف جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی میں اپنے اراکین کی نامزدگیاں بھی کر دی تھیں یہ بالکل ویسا ہی وتیرہ ہے جو ترمیم کیلئے پیش کیے گئے آئینی مسودے پر اختیار کیا گیا پہلے اسے اپنی مرضی کے مطابق کمزور سے کمزور تر کروایا خود مولانا فضل الرحمن کے الفاظ میں ہم نے کالے ناگ کےدانت توڑ دیے ہیں جب یہ سب کچھ ہو گیا تو اچانک سے ترمیم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا کہ ہمارا بانی نہیں مان رہا ‎۔درویش کی نظر میں اس نوع کی حرکات عام آدمی کو کنفیوژ کرنے کیلئے کی جاتی ہیں۔ درویش عرض گزار ہے کہ اس ملک یا اس سر زمین کےاصل وارث عوام ہیں ہماری اجتماعی عوامی طاقت ہی اقتدار کا سر چشمہ ہے لہٰذا حکمرانی کا حق ان نمائندوں کو ہے جنہیں عوام چن کر پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں منتخب پارلیمنٹ کی اتھارٹی یا بالادستی کے سامنے دیگر تمام اداروں یا محکموں کو سرنگوں ہونا چاہیے خواہ وہ کوئی بھی ہوں، یہ سبھی پبلک سرونٹ یعنی عوام کے ملازم یا نوکر ہیں جبکہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ آواز خلق اور نقارہ خدا ہے، ‎اس کا تقابل کسی بھی اور ادارے سے کیا جانا ازخود گناہ سمجھا جانا چاہیے۔عالمگیر سچائی یہ ہے کہ پارلیمنٹ پر اگر کوئی قدغن ہے تو محض ہیومن رائٹس کی، اس کے علاوہ اس پر کسی نوع کی کوئی قدغن چاہے وہ کتنے ہی مقدس لبادے میں ہو، آئین، جمہوریت اور انسانی عظمت و وقار کی نفی ہے۔‎ افسوس صد افسوس اس ملک میں پارلیمنٹ کی کوکھ سے پیدا ہونے والے آئین کی پیداوار یا مرہون منت جوڈیشری ہر موقع پر زور آوروں کے تو ساتھ رہی مگر پارلیمنٹ اور اس کی منتخب قیادت کو ہمیشہ آنکھیں دکھاتی پائی گئی، کس قانون نے اسے یہ حق دیا تھا کہ وہ‎تین مرتبہ کے منتخب پرائم منسٹر کو یہ کہتے ہوئے فائر کر دے کہ آپ نے اپنے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی؟، گیلانی صاحب آپ نے اپنے پارٹی قائد کے خلاف خط کیوں نہیں لکھا؟درویش نے اس جوڈیشل‎ایکٹیوازم کے خلاف بہت لکھا ،پیہم لکھا شکر ہے آج کسی حد تک شنوائی ہوئی ہے۔ہماری سپریم جوڈیشری میں براجمان بعض ججز نے جوڈیشل ایکٹیوزم کے تحت اخیر کر دی تھی ایک طرف عسکری ڈکٹیٹروں کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے آمروں کو وہ اتھارٹی بھی پیش کردیتےجس کا استحقاق خود انھیں حاصل نہ ہوتا تھا ۔دوسری جانب منتخب جمہوری قیادت کے سامنے بادشاہ گر کا روپ دھار لیتے ۔‎حق سچ تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کل کو اگر اس نوع کا فیصلہ کر دے کہ پرائم منسٹر کو جو اتھارٹی آرمی چیف کی تعیناتی پر ہے وہی اتھارٹی چیف جسٹس کو لگانے کی ہوگی تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں بن سکتا۔‎اب آئینی ترمیم کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ عوام کے ہزاروں مقدمات جو برسوں سے التوا کا شکار چلے آ رہے ہیں انکی بھی کوئی شنوائی ہو گی۔ امیدہے کہ چیف جسٹس یحیٰی آفریدی بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قائم کردہ اعلیٰ روایات کے امین بنتے ہوئے پارلیمنٹ کی عظمت کے سامنے سرنگوں رہیں گے۔ ‎قابل ستائش آئینی ترمیم کی منظوری پرتحسین کا حقدار ہر ممبر پارلیمنٹ ہے لیکن یہ معرکہ سر کرنے پرخصوصی شاباش پی پی کے جواں سال لیڈر بلاول بھٹو کا استحقاق ہے انہوں نے اس حوالے سے جو کاوشیں کیں، بڑوں کا جس طرح احترام کیا اور اسمبلی میں جو خوبصورت تقریر کی اگر یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھایا تو ایک دن ضرور قوم انہیں سر آنکھوں پر بٹھائے گی۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے تدبر سے بے ھنگم پارہ کنٹرول کرتے ہوئے اپنی سیاسی صلاحیتوں کا لوہا اور تو اور پی ٹی آئی جیسوں سے بھی منوایا ہے۔علاوہ ازیںایمل ولی خان کی تقریر بھی قابل تحسین تھی، نواز شریف نے اپنے چالیس سالہ کرب کو جس طرح ایک شعر میں سمو دیا،وہ حسب حال تھا

ناز و انداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہوگا

زہر دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہوگا

جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں

جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہی ںکہ جینا ہوگا

تازہ ترین