ہر ایک ایکشن کا ری ایکشن ضرور ہوتا ہے۔ عمل اور ردِ عمل کا یہ تسلسل تاریخی، جغرافیائی، سیاسی اور عسکری دُنیا کا سب سے بڑا سبق ہے۔ ماسوائے اُن قوموں کے جہاں ظلِ الٰہی کا حکم چلتا آیا ہے۔ مغربی دُنیا کا مقولہ ہے ’’باس ہر وقت ٹھیک کہتا ہے‘‘ مشرق کی تجارت کا اصول کچھ اور ہے یعنی ’’گاہک ہر وقت ٹھیک کہتا ہے‘‘۔ مغرب سے متاثر سرکاری ہرکارے اور ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق ہم آواز ہو کر کہتے ہیں فوج نہ بولے۔ کاش آرمی چیف کی زبان گُنگ ہو جائے۔ حکومتوں کی تقریباً پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کیا کبھی کوئی وزیر اپنی سپاہ ، اپنے جوانوں کے خلاف بولا ہے...؟ جن وزیروں میںقوم کے لئے بولنے کا دم ہوتا ہے وہ اپنی حکومت پر عقاب کی نظر رکھتے ہیں۔ حالات درست نہ کر سکیں تو وزارت کو لات مار دیتے ہیں۔
آج سول ملٹری تعلقات کی بحث میں درباری ’’لشکر‘‘ اپنی ہی فوج کو بُرا اور امیر المومنین بننے کی خواہش کو اچھا کہہ رہے ہیں۔ اپنے محافظوں کو بُرا کہنے والے وہ ہیں جنھوں نے آرٹیکل 90اور 91کے مطابق پاکستان کا وفاق چلانا ہے۔ اگر جوان اتنے ہی قابلِ مذمت ہیں اور مذ مت کرنے والے اس سرزمین کا تحفظ کر سکتے ہیں تو بسم اللہ کر کے آغاز کرو۔ عیاشی اور پستی میں گھرے ہوئے کانسٹیبلری، ا سکائوٹ، رینجرز اور فوج کے جوان اپنے محلات کی حفاطت سے ہٹا دو۔ ان جوانوں کی اسکارٹ میں 200کلو میٹر کی رفتار سے بھاگنے والی گاڑیاں واپس بھیج دو۔ جس میں بیٹھے ہوئے دُھول میں اَٹے چہرے پسند نہیں۔ پروٹوکول ڈیوٹی سے ان نوجوانوں کو نکال کر اپنی خود مختاری کا اعلان کرو۔ اپنے عوام کو عملی سبق دو کہ تمہاری طرح ہماری حفاطت کا ذمہ دار بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ پھر دفاع کی تنخواہ اور پروٹوکول لینے والے لوہے کی ٹوپی یا ہیلمٹ پہن کر سرحد پر کھڑے ہوں۔ دفاعی حصار پر برسنے والے ڈمہ ڈولہ ، تورا بورا اور شلمان کے پہاڑوں تک پاکستان کی سیر کریں۔ نوشکی، چاغی اور تافتان والے پاکستان کے 62فیصد جغرافیے کے صوبے بلوچستان کی بھی خبر لے آئیں۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرسکتا تو پھربالا دستی اور خود مختاری کے نعروں کی گونج میںسپاہ کے ناکردہ گناہ کے الزام کا قدرتی ری ایکشن سُننے کا حوصلہ پیدا کرنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ کی تابعداری کا ڈھول بجانے والے بہرے ہوگئے ہیں یا گونگے۔ وہ اپنی ایک آنکھ کھول کر فوجی ری ایکشن پر رکھیں اور اگر دوسری کھلے تو چوہے مار گولیوں کا برانڈ پڑھ لیں وہ کس فیکٹری میں تیار ہو رہی ہیں...؟
اپنی تاریخ گواہ ہے اچھے وہی ہیں جن کو بُرے وقتوں میں اچھی اور محفوظ جگہ پہنچ جانے کا فن آتا ہے ۔ ظاہر ہے بُرے وہی ہیں جو کبھی سیلاب ، کبھی قحط کے دوران، کبھی محاذوں پر، کبھی بھل صفائی، میٹر ریڈنگ کی ڈیوٹی پر لگائے جاتے ہیں ۔ وہ اتنا بھی نہیں سوچتے ہمارا مینڈیٹ کیا ہے...؟ ہلکا یا بھاری ہے...؟ یہ بے غرض لوگ do and die, don't say why کہہ کر بڑے لیڈروں ، حکمرانوں اور اشرافیہ کی قیمتی جانوں کو بچانے کے لئے اپنی بے قیمت جان قربان کرنے کی ’’عیاشی‘‘کرتے ہیں۔ لندن ، دبئی، امریکہ، فرانس، قطر، کینیڈا اور جدہ کے محلات، شیٹوز ، ولاز اور لگژری اپارٹمنٹس کی ’’جلا وطنی‘‘ کاٹنے والے اصل کمانڈوز ہیں۔ ان مقدر کے سکندروں کو اچھی طرح معلوم ہے جو کمانڈو بھاگ کر جان بچا لے وہ ایک اور’’باری‘‘ لگانے کے لئے بچ جاتا ہے۔
پچھلے سال عوام دشمن، آٹو کریٹک، ظالمانہ بجٹ پر پارلیمنٹ کے اندر جوں ہی بحث شروع ہوئی۔ بحث کے دھوئیں سے ڈکٹیٹرشپ کے خلاف آرٹیکل 6کا جن برآمد ہوا۔ اندھا بلکہ کانا، لنگڑا بلکہ لُولا۔ یہ جن ایک آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ایک ٹانگ پر چلتا ہے۔ اسی لئے اس کی پیدائش سے پاکستان کی آئینی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ متنازعہ ہو گیا۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل 12 ، protection against retrospective punishmentیعنی موثر بہ ماضی سزائوں کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ایک جرم ایسا ہے جس میں یہ تحفظ کسی کے لئے موجود نہیں۔ آرٹیکل 12 کے ذیلی آرٹیکل 2میں اس جرم کے ٹرائل کو یوں موثر بہ ماضی بنایا گیا۔
12.(2) Nothing in clause (1) or in Article 270 shall apply to any law making acts of abrogation or subversion of a Constitution in force in Pakistan at any time since the twenty-third day of march, one thousand nine hundred and fifty six, an offence.
’’ اس آئینی دفعہ کا مطلب یہ ہے کہ 23مارچ 1956کے دن سے جس کسی نے آئین توڑا اس کے خلاف کسی وقت بھی ٹرائل ہو سکتا ہے‘‘۔ آئین جو مرضی کہتا رہے یہاں ہر ادارہ، ہر پارٹی اور سیاست کے سرمایہ کار اپنا اپنا’’بابا‘‘ بچانا چاہتے ہیں۔ خواہ اس کی قیمت پوری قوم کو دینی پڑے۔ قانون کی بالا دستی کا عالمی ریکارڈ بھی میرے پیارے شہر لاہورکو ملا ہے۔ مبارک ہو یہاں مجرموں کے خلاف پیدائش کے فوراً بعد پرچہ درج کرنے کا عالمی ریکارڈ بن گیا۔9 ماہ کا لاہوری شہزادہ’’ فیڈر‘‘ منہ میں پکڑے اقدامِ قتل کے ملزم کے رُوپ میں مجسٹریٹ کے سامنے کھڑا تھا۔ انصاف کی حد ہو گئی۔ نہ تو9 ماہیے ملزم کو ڈسچارج کرکے بری کیا گیا ۔ نہ ہی نونہال کُش پولیس کو ہتھ کڑی لگا کر کوٹ لکھپت بھجوایا گیا۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اداروں کو وارننگ دی ، وہ اپنی اپنی حد میں رہیں۔ یہ وارننگ پنجابی پولیس اور دفاعی وزیر کو کون پہنچائے گا...؟
پچھلے دنوں میں نے ایک گفتگو میں کہا کہ جو گولی شہید بے نظیر پر چلائی گئی اس نے فیڈریشن کو بھی قتل کر دیا۔چودہ طبق کھول کر دیکھ لیں آج فیڈریشن کا نام لینے والا کوئی نہیں رہا۔ ہر طرف اِدھر ہم اُدھر تم ۔ لڑتے لڑتے ہو گئے گُم۔ ایک کی چونچ اور ایک کی دُم والی سیاست ہے۔ حکمرانوں میں سے کسی نے غلطی سے بھی پچھلے ایک سال میں وفاقِ پاکستان کا نام بھول کر بھی نہیں لیا ۔ اسلامی جمہوریہ میں فیڈریشن سے کنفیڈریشن تک کا سبق آخری اسٹاپ کو پہنچنے لگا ہے۔ یوں لگتا ہے قائدِ اعظم کے پاکستان کو نہرو، پٹیل اور ابوالکلام کی نظر لگ گئی۔ عوام اور اُس کے دُکھ دردکسی کے ایجنڈے پر نہیں۔ ہر طرف کلچر ہی کلچر ہے۔ ڈھول باجا، تماشہ اور تاشہ ، پاکستان کے مالکان کا کلچر۔ جبکہ پاکستان کے کرایہ داروں کے لئے بم دھماکہ، تباہی لاشہ، کلچر بن گیا ہے۔ مولانا سراج الحق نے وہ نعرہ لگادیا ہے جسے بھول کر ماضی کے انقلابیے مفاہمت برانڈ کبابیے بن چکے ہیں۔ پاکستان کے 95فیصد لوگوں کو اپنے وسائل 5 فیصد قبضہ گروپوںسے واگزار کرانے ہونگے۔
صوفی منش جسٹس جواد ایس خواجہ نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ پاکستان زمین کا ایک ٹکڑا بھی ہے۔ اور اس پر آباد اٹھارہ کروڑ تیس لاکھ لوگ انسان ہیں چوہے نہیں۔ صوفی جب سالک بننے کے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو وہ خود پرستوں کا باغی بن جاتا ہے۔ آج اگر انا پرستی، اقتدار پرستی، زر پرستی اور مفاد پرستی سکّہ رائج الوقت نہ ہوتی تو جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس پر نوحے چھپتے ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ میگا پراجکٹس کے لئے بڑی رقمیں موجود ہیں مگر آٹا غائب ہے۔ مجھے ڈر ہے کہیں حکمران عوام کو آٹے کی بجائے چوہے مار گولیاں کھلانے والے ریمارکس کو سنجیدگی سے نہ لے لیں۔ جس کے کچھ آثار’’ گندم کے گھر‘‘ پنجاب اور سندھ میں کھل کر سامنے آئے ۔ جہاں عوام کے لئے آٹے کی بجائے سناٹا ہے اورریلیف کی بجائے گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔