بچپن سے سنتا آرہا تھا کہ پتہ پانی ہو گیا مگر کبھی پست ہمتی کی اس کیفیت تک پہنچا نہیں تھا۔ ابھی پچھلے دنوں جب پتے سے پانی کی بجائے پتھر نکلے اور جگر کی کسی رگِ مہین میں آ کر رک گئے تواس پتے کے بارے میں سوچنا پڑ گیا کیونکہ رگِ جاں پر سنگساری بہت تکلیف دہ تھی۔ پتے کے بارے میں میرا خیال تھا کہ پتہ پانی پت والی پت سے مشتق ہے مگر اب کے درد نے سارے مفاہیم ہی بدل کر رکھ دئیے۔ اگرچہ پانی پت اپنی لڑائیوں کے سبب مشہور ہے مگر ضرب المثل ’’پانی پت کے رہنے والے ہیں‘‘ ہے ۔ یعنی میٹھے لوگ ہیں۔
ڈاکٹرز نے تقریباً پانچ گھنٹے کا طویل آپریشن کیا۔ کسی نالی کے منہ پر جمی ہوئی پتھری کو بھی نکال دیا اور پتہ بھی مگر نکلتے نکلتے پتہ نے واردات پوری کی یعنی اپنے زہر کو میرے رگ و پے میں دوڑانے کی بھرپور کوشش کی لیکن غالب کی طرح ’’رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل‘‘ بلکہ ہم نے تو اسے آنکھ سے بھی نہیں ٹپکنے دیا۔ قصہ کا اختتام کچھ یوں ہوا کہ پانی پت کی لڑائی ڈاکٹرز جیت گئے اور پتہ ہار گیا، اسے ریاستِ منصور سے اپنی پتھریوں اور اپنے زہر سمیت دیس نکالا دے دیا گیا۔ مجھے ایک نئی زندگی کی نوید ملی۔ ہوش آیا تو میں نے اپنے سوچنے کے انداز میں معمولی سی تبدیلی محسوس کی۔ سوچا کہ ایک نہ ایک دن مرنا تو ہے۔
یہی سوچ کر ٹیپو سلطان نے کہا تھا ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ سو بہتر یہی ہے کہ ان لوگوں میں شامل ہو جایا جائے جنہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن۔ اگرچہ یہ مرتبہ آسانی سے ہاتھ نہیں آتا۔ محمد علی رشکی نے کہا تھا ’’یہ رتبہ ِ بلند ملا جس کو مل گیا۔۔۔ ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں۔ اس منصبِ بلند پر ہردور میں کوئی نہ کوئی فائز ہوتا رہا ہے مگر ترقی یافتہ قوموں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد آئین اور قانون کے تحت جینا سیکھ لیا۔ برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کو بھی اپنے غیر قانونی قبضے چھوڑ نے پڑے۔
جمہوریت کو فروغ ملا، انسان کو انسان سمجھا جانے لگا، اسے اس کے حقوق دئیے جانے لگے۔ وہ جو صدیوں سے بزورِ شمشیر دنیا فتح کرنے کا رواج تھا ختم ہوا۔ سرد جنگیں شروع ہوئیں۔ سوویت یونین کے خاتمہ پراس دور کا بھی خاتمہ ہو گیا اس کے بعد جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور تھا۔ چونکہ ملکوں پر قبضہ کرنے کا قدیم رواج اختتام کو پہنچ چکا تھا اس لئے جنگ کسی اہم بہانے کے بغیر ممکن نہیں رہی تھی۔ جنگوں کی تباہ کاریوں نے لوگوںکو بغیر فوج کے جینے کا ہنر سکھایا۔ بہت سے ممالک نے فوج کے تصور تک کو ختم کر دیا۔ کئی ممالک نےدوست ممالک سے حفاظتی معاہدے کرلیے ۔جن ترقی پذیر ممالک کے زمینی تقسیم کے پرانے مسئلے سلگتے رہے تھے وہاں بہر حال ملٹری کی ضرورت اہم رہی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے کبھی سلگتے مسائل کو ٹھنڈا ہونے ہی نہیں دیا کیونکہ ان کے اسلحہ سازی کے کارخانے انہی کی بدولت چلنے تھے۔ اسرائیل کی تخلیق میں بھی اس بات کو مدنظر رکھا گیا کہ مسلم ممالک کو یہاں الجھایا جا سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کبھی حل نہیں ہونے دیا گیا کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں اسلحہ کے بہت بڑے خریدار ہیں۔ میں کسی اور طرف نکل آیا ہوں۔ بات ہو رہی تھی کہ ترقی یافتہ ممالک میں آوازہِ حق بلند کرنے پر سزا کا تصور ختم کردیا گیا۔عوامی اور جمہوری حکومتیں لوگوں کے مفادکے مطابق قائم ہونے لگیں۔ اس وقت غیر جمہوری اور غیر عوامی حکومتیں چند مسلمان ممالک کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آتیں۔ پاکستان بھی ایک اسلامی جمہوری مملکت ہے مگر اس پر کافی عرصہ مارشل لائوں کی حکومت رہی، یعنی غیر قانونی اور غیر آئینی۔ ان کے خلاف لوگوں نے آوازیں بلند کیں، کئی لیڈروں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، کئی شہید ہوئے مگر جمہوری حکومت کا تسلسل آگے بڑھتا رہا۔ لمحہِ موجود میں ہم جہاں ہیں وہاں پہلے کبھی نہیں رہے۔ پاکستان میں یا تو جمہوری حکومت رہی یا مارشل لا رہا۔ پہلی مرتبہ صورتحال عجیب و غریب حد تک پیچیدہ ہو چکی ہے۔ ہماری ریل گاڑی ریلوے لائن پر بھی ہے اور اس سے اتر بھی چکی ہے۔ ہم آگے کی طرف سفر بھی کر رہے ہیں اور رکے ہوئے بھی ہیں۔ ہم آزاد بھی ہیں اور غلام بھی۔ ہم سب جی بھی رہے اور مردہ بھی ہیں۔
سو اس صورت حال سے ہمیں نکلنا ہے کیونکہ یہ ویسے بھی ہے اور ایسے بھی، گریبانوں کے کھلنے ہیں بٹن ایسے بھی ویسے بھی، یہ مٹی اپنے ہونے ہیں بدن ایسے بھی ویسے بھی، مری پوروں سے مت گھبرا جواں جذبوں کی دستک سن، گیا وہ چند روزہ بھولپن ایسے بھی ویسے بھی، کسی پر جاں نثار اپنی کریں یا یونہی مر جائیں، فنا کا بج رہا ہے سائرن ایسے بھی ویسے بھی، دھواں آہوں کا ہو یا کاجلی آنکھوں کی رعنائی۔، فضا میں گھل رہا ہے کاربن ایسے بھی ویسے بھی، جہاں بھی کیمرے آئیں، درختوں سے لٹک جائیں، اسمبلی ہال کے کچھ ٹارزن ایسے بھی ہیں ویسے بھی، قیامت حسنِ جاناں کی ہو یا جنگوں کی وحشت ہو زمانہ ہے بہت ہی پُر فتن ایسے بھی ویسے بھی، تعلق میں محبت میں کہانی میں زمانے میں وہ میری ہے ہمیشہ سے کزن ایسے بھی ویسے بھی، زمیں کو چیرنا چاہے، فلک کو پھاڑنا چاہے مسلسل آدمی ہے گامزن ایسے بھی ویسے بھی، اسے بس دیکھتے جاویں مگر غیروں کے پہلو میں لگن ایسے بھی ویسے بھی، جلن ایسے بھی ویسے بھی، اِسی سے بارشیں ممکن، اسی سے دشت ہے منصورؔؔ۔