• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مادہ کی آخری اکائی ایٹم ہے جس طرح سماج یا معاشرے کی آخری اکائی فرد ہوتا ہے۔ اگر ہم ایٹم کو توڑنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم اس کو فنا نہیں کرتے بلکہ اس کو ایک نئی اور زیادہ بڑی قوت میں تبدیل کر دیتے ہیں (اس کی مثال میں اس کالم میں آگے چل کر پیش کرونگا) جس کا نام جوہری توانائی ہے مادہ منجمد توانائی ہے اور توانائی منتشر مادہ۔یہ اپنی ابتدائی شکل میں جتنی قوت رکھتا ہے اسکے مقابلہ میں اس وقت اسکی قوت بہت بڑھ جاتی ہے جبکہ اس کے ایٹموں کو توڑ کر جوہری توانائی میں تبدیل کر دیا گیا ہو۔ معمولی مادی قوت اور جوہری قوت میں کیا فرق ہے اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ دو ٹن کوئلہ ایک ریل گاڑی کو 70 میل تک لے جاتا ہے اور نو گیلن کروسین ایک موٹر کو 500 میل تک دوڑانے کیلئے کافی ہے اسکے مقابلے میں 12پاؤنڈ یورینیم جب جوہری توانائی میں تبدیل کر دیا جائے تو وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ ایک تیز رفتار راکٹ کو 2 لاکھ 40 ہزار میل کا سفر طے کرا سکے ایسا ہی معاملہ اس سماجی اکائی کا ہے جس کو انسان کہتے ہیں انسان جب ’’ٹوٹتا‘‘ہے تو وہ بے پناہ حد تک وسیع ہو جاتا ہے جس طرح مادہ ٹوٹنے سے فنا نہیں ہوتا بلکہ اپنی قوت بڑھا لیتا ہے اس طرح انسان کی ہستی جب ’’شکست‘‘ سے دو چار ہوتی ہے تو وہ ختم نہیں ہوتی بلکہ نئی شدید تر طاقت اور قوت حاصل کر لیتی ہے اسکے تمام احساسات جاگ اٹھتے ہیں اسکی چھپی ہوئی طاقتیں اپنی ناکامی کی تلافی کیلئے حرکت میں آ جاتی ہیں اس کے عزم و ارادہ کو مہمیز لگتی ہے اس کے اندر ہاری ہوئی بازی کو دوبارہ جینے کا وہ بے پناہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جو سیل رواں کی طرح آگے بڑھتا ہے اس کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا حتیٰ کہ پتھریلی چٹانوں کے بس میں بھی نہیں۔ مادہ کے اندر ایٹمی توڑ پھوڑ اسکو بہت زیادہ طاقتور بنا دیتی ہے اسی طرح انسانی شخصیت کے اندر بے پناہ امکانات چھپے ہوئے ہیں یہ امکانات اس وقت بروئےکار آتے ہیں جب انسان کسی حادثہ، شکست، ناموافق حالات یا توڑ پھوڑ سے دو چار ہوتا ہے اس پر کوئی ایسا حادثہ گزرے جو اس کی شخصیت کو توڑ پھوڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دے جو اس کے تاروں کو چھیڑ کر اس کے ساز حیات بجا دے۔ اس سلسلے میں ایک نامور ادیب کی مثال دی جا سکتی ہے سر والٹر اسکاٹ کا شمار انگریزی ادب کے نامور افراد میں ہوتا ہے اسکی پیدائش 1771میں اور وفات 1832میں ہوئی، اس نامور شاعر و ادیب کو اس کا یہ عظیم مقام ایک معمولی حیثیت کی قیمت پر ملا۔ اسکی معمولی حیثیت اس کیلئے وہ زینہ بن گئی جس پر چڑھ کر وہ اعلیٰ درجے کو پہنچا۔ والٹر اسکاٹ اپنی ادھیڑ عمر تک ایک معمولی صلاحیت کا انسان سمجھا جاتا تھا اس کی حیثیت بس ایک تیسرے درجے کے شاعر کی تھی اس کے بعد ایسا ہوا کہ اس کے اوپر قرضوں کا بوجھ لد گیا۔اس کا بال بال قرضوں میں جکڑا گیا اس کی شاعری اس کو اتنی آ مدنی نہ دے سکی جس سے وہ اپنے قرضوں کی ادائیگی کر سکے۔ اس نے رقم حاصل کرنے کیلئے بہت ہاتھ پیر مارے مگر ہربار اسے ناکامی ہوئی۔ بالآخر اس کے حالات نہایت شدید ہو گئے۔ شدید حالات نے اسکی شخصیت کو آخری حد تک جھنجوڑ دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ والٹر اسکاٹ کے اندر سے ایک نیا انسان ابھر آیا اس کی ذہنی پرواز نے کام کا نیا میدان تلاش کر لیا۔ اب اس نے نئی نئی کتابیں پڑھیں یہاں تک کہ اس پرکھلا کہ وہ محبت کی تاریخی داستانیں لکھے۔ چنانچہ اس نے محبت کی تاریخی داستانوں کو ناول کے انداز میں قلم بند کرنا شروع کر دیا اپنے مقروض ہونے کے خیال اور قرض کی ادائیگی کے جذبے نے اسکے خیالات کو ابھارا کہ وہ اس میدان میں زبردست محنت کرے اس نے کئی سال تک اس راہ میں اپنی تمام توانائیاں اور اپنی ساری طاقت صرف کر دی کیونکہ اس کو اپنی کہانی بازار میں اچھی قیمت پر فروخت کرنی تھی اور یہ اسی وقت ممکن تھا جب اس کی کہانیاں اتنی جاندار ہو ںکے قارئین کی توجہ اپنی جانب کھینچ سکیں اور اس سے بھی پہلے اس کا پبلشر اسے چھاپنے پر آمادہ ہو جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا والٹر سکاٹ کی غیر معمولی محنت اس کی کہانیوں کی مقبولیت کی ضامن بن گئی اس کی لکھی ہوئی کہانیاں اتنی زیادہ تعداد میں فروخت ہوئیں کہ اس کا سارا قرض ادا ہو گیا کہنے والے کہتے ہیں کہ والٹر سکاٹ پر اگر یہ آفت نہ آتی اور اس کی شخصیت کی توڑ پھوڑ نہ ہوتی تو اس کے اندر وہ زبردست تحرک پیدا نہیں ہو سکتا تھا جس نے اس سے وہ کہانیاں لکھوائیں جس نے اسکو انگریزی ادب میں غیر معمولی مقام دے دیا۔ اسکے بعد عزت، دولت ،شہرت اور مقبولیت کے تمام دروازے اس پر کھلتے چلے گئے والٹر سکاٹ نہ صرف متمول ہو گیا بلکہ اسے سر کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ والٹر سکاٹ کیلئے قرض کا مسئلہ نہایت جانگسل مسئلہ تھا لیکن اگر یہ مسئلہ نہ ہوتا تو شاید والٹر سکاٹ سر والٹر سکاٹ بھی نہ بنتا... یہاں میں والٹرا سکاٹ ہی کا جملہ دہراتا ہوں ’’پُرامن سماج بنانے کا ذریعہ پر امن انسان بنانا ہے، جب تک پرامن سوچ رکھنے والے انسان وجود میں نہ آئیں پرامن سماج کا وجود بھی ممکن نہیں‘‘ـ انسان کے اندر بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔یہ صلاحیتیں عام حالات میںسوئی رہتی ہیں وہ بیدار اس وقت ہوتی ہیں جب ان کو جھٹکا لگے جب وہ عمل میں آئیں، تاریخ یہ بات واضح طریقے سے بتاتی ہے کہ انہی لوگوں نے بڑی بڑی ترقیاں حاصل کیں جو حالات کے دباؤ میں مبتلا تھے ،قدرت کا یہی قانون افراد کے لیےہے معاشرے اور سماج کیلئےہے اور یہی قوموں کے لیے۔

تازہ ترین