• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک سال پہلے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان شروع ہونے والی جنگ کا دائرہ لبنان ، شام ، یمن اور ایران تک پھیل چکا ہے ۔ایران اور اسرائیل کی جانب سے ایک دوسرے پر میزائیل حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک روز پہلے ایران پر اسرائیل کے میزائل حملوں میں ایران کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن ایرانی حکومت کے دعوے کے مطابق اس کے دفاعی نظام نے ان حملوں کو بڑی حد تک ناکام بنادیا۔ تاہم ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق ایران صہیونی جارحیت کیخلاف اپنے دفاع میں جوابی اقدام کا حق رکھتا ہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ صیہونی حکومت کا مسلسل قبضہ، غیر قانونی اقدامات اور جرائم خاص طور پر فلسطینی عوام کی نسل کشی اور لبنان کے خلاف جارحیت جو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جامع حمایت کی وجہ سے جاری ہے، خطے میں کشیدگی اور عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات ہیں۔دوسری جانب اسرائیلی دفاعی افواج نے ایک بیان میں کہا کہ ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کئی ماہ سے جاری حملوں کے جواب میں اس وقت اسرائیلی دفاعی افواج ایران میں فوجی اہداف پرحملے کر رہی ہیں۔ بہرکیف اب ایران پر اسرائیل کے تازہ حملے اور ایران کی جانب سے جوابی کارروائی کا حق رکھنے کے بیان نے اس خطرے کو واضح تقویت دی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کشیدگی کا دائرہ مزید پھیل جائے اور اس کے نتیجے میں ایک ایسی عالمی جنگ چھڑ جائے جس کی تباہ کاریوں کا تصور بھی محال ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے اس خطرے کا بڑی شدت سے اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری کو متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران میں فوجی اہداف پر بمباری کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کی شدت خطرناک حدتک بڑھنے کا خدشہ ہے اور یہ قابو سے باہر ہوسکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ایران کو جوابی کارروائیوں کے لیے اکسانا بند کیا جائے اور بے قابو کشیدگی کے چنگل سے باہر نکلا جائے۔ ہم تمام فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں، تشدد کو ختم کریں اور واقعات کو تباہ کن منظر نامے میں تبدیل ہونے سے روکیں جبکہ خود صدر ولادی میر پیوٹن نے رواں ہفتے ابھرتے ہوئے ممالک کے گروپ برکس کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں علاقائی طاقتوں اسرائیل اور ایران کے درمیان تناؤ سے مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر جنگ چھڑجانے کا خطرہ ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے بھی ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امن کے حصول کیلئے تہران اور اس کے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس طرح کے اقدامات نہ صرف علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرہ ہیں بلکہ قومی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کے اصولوںسے بھی متصادم ہیں۔ سعودی عرب، ملائیشیا، متحدہ عرب امارات، عراق، عمان اور دیگر متعدد ملکوں نے اسرائیلی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے جبکہ امریکہ وبرطانیہ نے اسرائیلی حملے کو یکم اکتوبر کے ایرانی میزائل حملوں کاجواب اور حق دفاع کے تحت جائز ٹھہراتے ہوئے ایران کو متنبہ کیا ہے کہ وہ جوابی کارروائی سے باز رہے ورنہ حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے اس منظرنامے کی ہولناکی کسی دلیل و حجت کی محتاج نہیں۔عالمی برادری خصوصاً بڑی طاقتوں اور اقوام متحدہ کو ایک تباہ کن عالمی جنگ کے ہر روز بڑھتے ہوئے خطرے کے سدباب کے لیے بلاتاخیر جنگ بند کرانے اور تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی خاطر فیصلہ کن اقدامات عمل میں لانا ہوں گے کیونکہ ایسا نہ کرنا پوری عالمی برادری کی جانب سے خود کشی کا خطرہ مول لینے کے مترادف ہوگا۔

تازہ ترین