جن دنوں میں پاکستان سے روانہ ہوا تو لاہور اور اسلام آباد میں گلے سے متعلق وبائی امراض عروج پر تھے، اکثر لوگوں کا گلا خراب تھا، ساتھ بخار اور کھانسی کی شکایت بھی تھی، برطانیہ پہنچ کر مجھے تین دن تک یہ احساس رہا کہ یہ امراض برطانیہ میں بھی اپنے عروج پر ہیں پھر امریکا پہنچا تو امریکا میں بھی یہی حال تھا، تینوں ملکوں میں ایک جیسے وبائی امراض پا کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ایسا کیوں ہے؟ مجھے خیال آیا کہ اس وقت دنیا میں دو بڑی جنگیں ہو رہی ہیں، اسرائیل، فلسطین پر وحشیانہ بمباری کر رہا ہے اور دوسری طرف یوکرین اور روس کی جنگ جاری ہے، انسان، انسانوں کے ساتھ کیا ظلم کر رہے ہیں، مجھے اس مرحلے پر غزالہ حبیب کا ایک شعر بے اختیار یاد آ رہا ہے
زمینوں پہ ہم، آسمانوں میں ہم
رہے مبتلا امتحانوں میں ہم
کراچی سے تعلق رکھنے والی یہ خوبصورت شاعرہ برسوں پہلے امریکا آن بسی تھیں، انہوں نے ڈیلس کو اپنا مسکن بنایا اور اسی شہر میں اپنا آشیانہ بسایا، ویسے لوگ انہیں کشمیر کے حوالے سے زیادہ جانتے ہیں کیونکہ یہ’’فرینڈز آف کشمیر انٹرنیشنل‘‘کی چیئر پرسن ہیں، مصروف زندگی میں بھی غزالہ حبیب خان کشمیر کے ایام منانا نہیں بھولتیں، ایسے لگتا ہے جیسے ان کے قلب کے قرطاس پہ کشمیر اور پاکستان لکھا ہوا ہے، اگرچہ ان کا تعلق سردار ابراہیم کے قبیلے سے ہے مگر یہ خود سید علی گیلانی کے نعرے سے بہت متاثر ہیں، آپ کو یاد ہے کہ سید علی گیلانی بڑے تسلسل کے ساتھ ایک نعرہ لگاتے تھے’’ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ میں بھی 27 اکتوبر کے سلسلے میں ایک احتجاج میں شریک ہوا ہوں، امریکا میں یہ احتجاج غزالہ حبیب کی قیادت میں ہوا ہے۔ جونہی میرے امریکا آنے کی خبر ادبی حلقوں تک پہنچی تو ہمدم دیرینہ الطاف بخاری کی روح بے چین ہو گئی اور انہوں نے سید ایاز مفتی کے ساتھ مل کر ہیوسٹن میں ایک تقریب سجائی، یہ تقریب انجمن تقدیس ادب کے زیر اہتمام ہوئی، میرے علاوہ کشمیر کی بیٹی اور تین کتابوں کی خالق غزالہ حبیب کو مہمان خصوصی بنایا گیا، اس مشاعرے کی صدارت عوامی شاعر خالد خواجہ کے سپرد تھی جبکہ فرح اقبال کو مہمان خاص کا درجہ دیا گیا، سید ایاز مفتی نے میرے متعلق کچھ کلمات ادا کیے، جس کا میں اہل نہیں ہوں، ویسے آپس کی بات ہے کہ قدرت نے سید ایاز مفتی کو بہت خوبصورت آواز سے نوازا ہے، ایاز مفتی نے نعت اور غزل سنائی، ڈاکٹر نجمہ اعجاز، رعنا حسین چندا، مظہر امام، الطاف بخاری، فرح اقبال اور غزالہ حبیب نے اشعار سنائے جبکہ خالد خواجہ نے صدارتی خطبے کے اشعار سنائے۔ خاکسار نے بھی پنجابی، اردو میں دال دلیہ کیا۔ اہالیان ہیوسٹن کی جانب سے یہ شام 5 اکتوبر کو منائی گئی ہے، میں تہہ دل سے انجمن تقدیس ادب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھ خاکسار کو یہ اعزاز بخشا۔
ہیوسٹن، ٹیکساس کا بڑا شہر ہے، یہاں کا موسم پاکستان کے جنوبی علاقوں جیسا ہے، اس لئے یہاں اہالیان کراچی کی اکثریت ہے، پنجابی بولنے والے کم ہیں، یہاں بسنے والے آٹھ دس لاکھ پاکستانی بہترین کاروبار کر رہے ہیں، اس سے اگلے روز ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل خانے میں قونصل جنرل آفتاب چوہدری سے ملاقات ہوئی، آفتاب چوہدری بڑے دلچسپ آدمی ہیں اور پورے ٹیکساس میں پاکستانیوں میں بہت مقبول ہیں۔ اسی شہر میں ڈاکٹر آصف قدیر سے بھی ملاقات ہوئی، ڈاکٹر آصف قدیر برسوں پہلے یہاں آباد ہوئے تھے، اب ان کی تیسری نسل جوان ہو گئی ہے، ڈاکٹر صاحب 60ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر کنگ ایڈورڈ کالج میں پڑھتے رہے ہیں، ڈاکٹر آصف قدیر بہت اچھے شاعر ہیں، انہوں نے چوہدری تنویر احمد کے ساتھ مل کر قائد اعظم فاؤنڈیشن قائم کر رکھی ہے، یہ دونوں پاکستان کے لئے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں، چوہدری تنویر احمد سیالکوٹ کے گاؤں گوہد پور، مراد پور کے رہنے والے ہیں۔ ہیوسٹن میں دولت کی دیوی ان پہ عاشق ہے۔ اب آخر میں سید ایاز مفتی کے چند اشعار پیش خدمت ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ امریکا میں کیسی شاعری ہو رہی ہے
زندگی دو گھڑی کو سانس تو لے
پھر رہی ہے کہاں کہاں لے کر
آپ ہی کی زبان بولتی ہے
بے زبانی میری زباں لے کر
آج پھر ماں جو خواب میں آئی
رو پڑا میں ہچکیاں لے کر