گنڈا پور کس کے ایجنٹ ہیں اور کس کے وفادار،تاریخ نے اپنا فیصلہ محفوظ کررکھا ہے لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ ریاست کے خلاف اب بغاوت، احتجاج کی سیاست کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ کسی ڈیل کا نتیجہ ہے یا ڈھیل کا۔ فریقین اس سے انکاری ہیں۔بانی پی ٹی آئی کی بہن،بشریٰ بی بی کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ڈیل کے بغیر آج تک کوئی باہر آیا ہے؟ علیمہ خان کو خدشہ ہے کہ یہ لوگ (معلوم نہیں بشریٰ بی بی یا جیل والے) عمران خان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ باکمال لوگوں نے خوب کمال کیا ہے کہ بشریٰ بی بی اور بانی کی بہنوں کو بیک وقت پنجرے سے نکال کرزخمی شیرنیوں کی طرح کھلے میدان میں فیصلہ کن لڑائی کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ دیکھتے ہیں نند بھاوج لڑائی کا انجام کیا ہوتا ہے کہ بشریٰ بی بی تو قلعہ بالا حصار میں چلہ کاٹ رہی ہیں اور اس قلعے کی بلند و بالا فصیلوں سے سیاسی ہا ئوہو کی آوازیں آرہی ہیں۔ جنات بھی شش و پنج میں ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کے حکم پر عمل کریں یا پھر بشریٰ بی بی کے حصار میں ہی رہیں۔ شیر افضل مروت تو بوتل توڑ کر اس حصار سے باہر نکل آئے ہیں اور خان کی وفاداری کا اقرار کرتے ہوئے بشریٰ بی بی کی آزادی کا پروانہ لانے والے گنڈا پور کے بھائی اور صوبائی کابینہ کے وزراءپر کرپشن کے نوٹوں سے بھری بوریاں وصول کرنے کے الزامات بھی لگا رہے ہیں۔ قلعہ بالا حصار کی مضبوط اونچی فصیلیں توڑنے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ اڈیالہ جیل میں قیدی نمبر804پل پل بدلتے حالات سے کس حد تک آگاہی رکھتے ہیں، پارٹی معاملات پر ان کا کس حد تک کنٹرول برقرار ہے جبکہ نند بھاوج لڑائی خان کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے کہ عورتوں کی سر پھٹول سے انہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ پی ٹی آئی کا سارا خاندان تو ان کے سر پر کھڑا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد کے واقعات قید خانے کے بند پنکھوں سے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیئے جارہے ہیں۔ کارکن شادیانے بجا رہے ہیں کہ خان اعلیٰ عدلیہ سے بارات لے کر ’’آوے ای آوے‘‘ اور شہباز ’’جاوے ای جاوے‘‘۔ ایسے میں سیاسی رسہ کشی، اقتدار کی جنگ میں سب جائز کے مصداق بڑے مولانا صاحب 26 ویں آئینی ترمیم کی منظور ی میں سب سے اہم کردار ادا کرکے فوری عام انتخابات کیوں مانگ رہے ہیں؟ ملین ڈالر سوال کا جواب یہ ہے کہ لاہور میں شہباز، بلاول ملاقات میں 27 ویں آئینی ترمیم لانے پر اتفاق، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کے عہدو پیماں میں مولانا کہیں نظر نہیں آرہے۔ مستقبل قریب میں ایک اور بڑا سیاسی ملاکھڑا سامنے کھڑا ہے۔ مولانا صاحب پھر مرکز نگاہ ہوں گے کیونکہ حکومت نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے اچھے کی جو امید لگائے بیٹھی تھی وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی موجودگی سےمعدوم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، ملکی حالات کیا رُخ اختیار کریں گے ہمیشہ کی طرح قوم کے سر پر یہ امتحان پھر کھڑا نظر آتا ہے۔ اگرچہ شہباز حکومت اسٹیبلشمنٹ کے درمیان طویل پارٹنر شپ ابتدائی مرحلے میں شاندار معاشی و اقتصادی کامیابیاں حاصل کر رہی ہے اور اس پارٹنر شپ کو توڑنےکیلئےقلعہ بالا حصار میں چلہ کشی زورو شور سے جاری ہے۔ دوسری طرف علی امین گنڈا پور اپنے صوبے میں دہشت گردی روکنے، امن و امان برقرار رکھنے میں بُری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں تشویش ناک اضافہ ، صوبائی حکومت کا اہم ترین اضلاع اور علاقوں پر کنٹرول کھو دینا ، سکیورٹی اہلکاروں کیلئے ان علاقوں کو نوگو ایریاز قرار دیا جانا سیاسی محاذ آرائی کے سبب پریشان کن نکتہ ہے۔ بڑی تبدیلی کہاں سے شروع ہوگی اور کس انجام کو پہنچے گی ریاست ،گنڈا پور کی انتظامی طور پر کمزور اور سیاسی طور پر مضبوط حکومت کو کب تک برداشت کرے گی۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان طالبان عبوری انتظامیہ کے نیٹ ورک کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ سیاسی و قومی سلامتی کے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے آپشن زیر غور ہیں۔ گورنر راج کی باتیں زبان زد عام ہیں۔ گنڈا پور کا متبادل تلاش کیا جارہا ہے۔ صوبائی اسمبلی میں ایک مضبوط ترین گروپ سامنے لانے کی محتاط کوششیں ہو رہی ہیں کہ کسی بڑے اقدام سے احتجاجی سیاست کو ہوا نہ ملے۔ قلعہ بالا حصار میں پکنے والی کھچڑی سے 27ویں آئینی ترمیم کی خوشبوئیں آرہی ہیں تو پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کے ٹوٹے ٹوٹے کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابی نتائج پاکستان کی آئندہ سیاست، اعلیٰ عدلیہ کے رجحان اور تحریک انصاف کے مستقبل پر لازماً اثر انداز ہوں گے۔ طاقت وروں نے اپنی بند مٹھی کی صرف دو انگلیاں بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کی صورت میں کھولی ہیں۔ شاہ محمود قریشی رہائی کے منتظر ہیں۔ وہ باہر آئیں گے، دھواں دار پریس کانفرنس میں اپنے دکھ سنائیں گے۔ ممکنہ طور پر پرویز الٰہی ان کے ساتھ براجمان نظر آئیں گے۔ عمران کی مشکلات ختم ہوتی نظر نہیں آرہیں۔ گھیرا مزید تنگ کئے جانے کے نمایاں امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ اسی لئے علیمہ خان کو انکی جان خطرے میں نظر آ رہی ہے۔ 9 مئی کے واقعات میں ملوث مرکزی کرداروں کو سزا وار قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ مرحلہ بہت کٹھن ہے مگر گزر ہی جائے گا۔ خیبر پختونخوا سے پنجاب تک پی ٹی آئی کیلئے الرٹ جاری سمجھیں۔