آئینی اصلاحات کی تندوتیز ہوا چلنے لگی اور شبِ تاریک میں سیاسی رہنماؤں کے درمیاں سرگوشیاں ہوتی رہیں، تو مجھ پر تجسّس کا بخار چڑھنے لگا۔ اِسی عالمِ اضطراب میں 26ویں آئینی ترمیم دونوں ایوانوں سے منظور ہو گئی اور وَزیرِاعظم جناب شہبازشریف نے اعلان فرمایا کہ پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کا در کھل گیا ہے اور اَب ہُن برسنے والا ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کرشمہ کس طرح وجود میں آئے گا، کیونکہ ہم تو اوّل درجے کے بھکاری بن چکے ہیں اور کوئی بھی خوش دلی سے ہماری جھولی میں بھیک ڈالنےکیلئے آمادہ نہیں۔ اپنی حیرت پر قابو پانے کیلئے مَیں نے ٹی وی کا سوئچ اون کیا، تو ایک ’صاحبِ نظر‘ سینیٹ میں اظہارِ خیال فرما رہے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اُن پر تشنج کا دورہ پڑا ہو۔ آنکھیں بھینچی ہوئی تھیں اور منہ سے الفاظ کا دھارا بہہ رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ نئی آئینی ترمیم سے دستور کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل ہو جائے گا، اِس لیے ہم اُسے مسترد کرتے ہیں اور اُس کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلائیں گے اور حکومت کا تختہ کر ڈالیں گے۔ اِسی دوران تالیاں بجنے کی بھی آوازیں آ رہی تھیں اور میرا دِل دھک دھک کرنے لگا تھا کہ یہ طوفان میرے عزیز وطن کا کتنا بڑا سرمایہ بہا کے لے جائے گا۔ مَیں نے پریشان ہو کر ٹی وی بند کر دیا۔
سرِشام خبریں سننے کا خیال آیا، تو ڈرتے ڈرتے ٹی وی کا بٹن دبایا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا اور بیک وقت ایک سے زائد عوام کے نمائندے ایک دوسرے پر حملہ آور ہو رہے تھے اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ الفاظ کے تیر برس رہے تھے اور طعن و تشنیع کی چھریاں چل رہی تھیں۔ میرا سر چکرانے لگا اور منہ سے بےاختیار نکلا ’’یا اللہ! قوم کے رہنما ایسے ہوتے ہیں اور کیا اجتماعی دانش اِسی ہلڑبازی کا نام ہے۔‘‘ پھر گرمئی گفتار میں یک دم تیزی آ گئی اور قومی اسمبلی مچھلی منڈی بن گئی۔ کچھ معقول اور اَچھی تقریریں بھی ہوئیں، ملکی فلاح و بہبود کے حوالے سے قابلِ عمل تجاویز بھی دی گئیں، مگر زیادہ تر گفتگو میں الفاظ برہنہ ہوتے گئے اور زورِ خطابت بجلیاں گراتا رہا۔ مَیں بےدم ہو کر ذہنی طور پر زمیں بوس ہو گیا اور جب حواس بحال ہوئے، تو لاچار کالم لکھنے بیٹھ گیا۔
قومی اور بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کے مطابق اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں شورشرابا ہوتا رہتا ہے، بعض اوقات کرسیاں بھی چل جاتی ہیں اور دَنگافساد بھی ہوتا ہے، مگر ہمارے ہاں احوال قدرے مختلف رہا۔ 26 ستمبر 1958 کو ہماری پارلیمانی تاریخ میں ایک جانکاہ حادثہ پیش آیا اور مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر جناب شاہد علی ہنگاموں کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، چنانچہ جب جنرل ایوب خاں کا مارشل لا 8؍اکتوبر 1958کو نافذ ہوا، تو اُس کا ایک سبب جناب ڈپٹی اسپیکر کا قتل بھی بتایا گیا۔ اللہ کا شکر ہے اُس کے بعد ایسا خونیں واقعہ پیش نہیں آیا، البتہ تندوتیز جملوں کی روایت آج بھی قائم ہے جس میں غیرجمہوری اور غیراخلاقی طور طریق شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ اب تو گُدی سے زبان کھینچ لینے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں جن کے باعث اختلافِ رائے بدترین دشمنی میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو جمہوریت کی خاطر اپنی یہ روش تبدیل کرنا ہو گی، ورنہ اخلاقی اور سیاسی اصولوں سے بغاوت پورے نظام کو بھسم کر ڈالے گی۔
اِس مسلمہ حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ دستور ہرگز ایک جامد دستاویز نہیں، کیونکہ معاشرتی اور سیاسی تبدیلیاں اِس میں ترامیم کا تقاضا کرتی رہتی ہیں۔ سمجھ دار قومیں اِس اہم ترین دستاویز میں بہت سوچ سمجھ کر ترمیم کرتی ہیں۔ امریکہ اِس کی نہایت عمدہ مثال ہے۔ اُس کا آئین 1789 میں نافذ ہوا اَور اَب تک اُس میں صرف 27 ترامیم کی گئی ہیں۔ اِس کے برعکس پاکستان کے آئینی تجربات خاصے مختلف ہیں۔ 14؍اگست 1973 کو متفقہ دستور نافذ ہوا اَور اُسی روز پہلی ترمیم بھی کر دی گئی اور پھر سلسلہ چل نکلا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے دستور اُدھیڑ ڈالا تھا، اِس لیے آٹھویں اور اٹھارہویں ترامیم کے جاںگسل مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ اٹھارہویں ترمیم نے تو تقریباً ایک چوتھائی دستور ہی ازسرِنو تحریر کیا تھا اور اِس کیلئے جو طریقِ کار اِختیار کیا گیا تھا، وہ حددرجہ قابلِ اعتراض تھا۔ پارلیمان میں تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک 27 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے نو دس مہینے ترامیم پہ غوروخوض کیا اور پورا عمل عوام کے نمائندوں سے خفیہ رکھا گیا۔ کمیٹی کے تمام ارکان سے حلف لیا گیا تھا کہ وہ ہر بات صیغۂ راز میں رکھیں گے۔ پاکستان کے ایک معروف تحقیقی ادارے ’پائنا‘ نے اِس حکمتِ عملی کے خلاف دو سیمینار منعقد کیے اور اِس امر پر زور دِیا کہ مجوزہ آئینی ترمیم پر کھلے بندوں بحث و تمحیص ہونی چاہیے، مگر جناب رضا ربانی نے، جو اُس کمیٹی کے سربراہ تھے، یہ معاملہ خفیہ رکھا اور مجوزہ ترمیم کسی بحث کے بغیر منظور کر لی گئی۔ اِس رازداری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا نظامِ حکومت فیڈریشن کے بجائے کنفیڈریشن کے انتہائی قریب پہنچ گیا ہے جس کے خلاف آوازیں اُٹھتی رہتی ہیں۔
26ویں آئینی ترمیم بھی مسلمہ ترمیمی مرحلوں سے گزرے بغیر بڑی عجلت میں منظور کرائی گئی ہے۔ اِس بنا پر اِس میں بڑے بڑے سقم رہ گئے ہیں جو آگے چل کر بڑے بڑے پیچیدہ مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ اُن پر بہت زیادہ سنجیدگی سے غور کرنے اور ہر نوع کے خلا پُر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اِس کے علاوہ سب سے بڑی ضرورت معاشرے کو مستحکم کرنا اور عوام کو بااختیار بنانا ہے۔ اِس کیلئے مقامی حکومتوں کے نظام کو بہتر بنانا اور بلدیاتی اداروں کی طرف زیادہ سے زیادہ اِختیارات اور وَسائل منتقل کرنا ہے۔ ہمارے دستور میں لوکل باڈیز کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، مگر اُن کے باقاعدہ اِنتخابات منعقد ہوتے ہیں نہ اُنہیں وسائل سے لیس کیا جاتا ہے۔ ہمیں یاد رَکھنا چاہیے کہ امریکہ جو دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے، اُسکے استحکام کا راز اُسکے مقامی اداروں کی لازوال قوت میں مضمر ہے جبکہ ہمارے مفادپرست سیاسی حلقے اُنہیں کمزور اَور بےجان رکھ کر اپنی حاکمیت قائم رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔