ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلئے موجودہ عالمی حالات میں برآمدات بڑھانے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران برآمدات میں اضافہ ہوا بھی ہے لیکن یہ اضافہ ہمارے حقیقی پوٹینشل سے بہت کم ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف انڈسٹری کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور شرح سود میں خاطر خواہ کمی نہ ہونے کی وجہ سے مالی دبائو کا سامنا ہےتو دوسری طرف سالہا سال سے زیر التوا ریفنڈز کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹر کو درپیش سرمائے کی قلت سنگین شکل اختیار کر چکی ہے۔ ان حالات کے باوجود ایکسپورٹرز برآمدات بڑھانے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں لیکن 18 فیصد سیلز ٹیکس کی ادائیگی کے بعد ان کے پاس بمشکل اتنا سرمایہ بچتا ہے کہ وہ پیداواری عمل جاری رکھ سکیں۔ یہ صورتحال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ جب سے ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئے زیرو ریٹنگ کی سہولت ختم کی گئی ہے۔ اس دن سے یہ مسئلہ ہر گزرتے دن کیساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور انڈسٹری کا سرمایہ ٹیکس ریفنڈز کی شکل میں حکومت کے پاس جمع ہونے سے پیداواری استعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ تادم تحریر دستیاب اعدادوشمار کے مطابق ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی 328ارب روپے سے زائد کی رقم مختلف ریفنڈز کی مد میں حکومت کی طرف واجب الا دا ہے۔ اس میں 105ارب روپے ڈیفرڈ سیلز ٹیکس ریفنڈز، 100ارب روپے انکم ٹیکس ریفنڈز، 55ارب روپے سیلز ٹیکس ریفنڈز، 35ارب 50کروڑ روپے ڈیوٹی ڈرا بیک آف لوکل ٹیکسز اینڈ لیویز، 25 ارب روپے ڈیوٹی ڈرا بیک، ساڑھے چار ارب ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن فنڈ اور ساڑھے تین ارب روپے مارک اپ سبسڈیز کی مد میں واجب الا دا ہیں۔
اگرچہ سیلز ٹیکس ریفنڈز 2006ءکے سیلز ٹیکس ایکٹ کے رول 39F کے تحت 18 فیصد سیلز ٹیکس کے ریفنڈز کی ادائیگی 72گھنٹوں کے اندر ہونا لازمی ہے۔ اس کے باوجود ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو ریفنڈز کے حصول کیلئے بار بار حکومت اور وفاقی وزارتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ حکومت نے حال ہی میں جو سیلز ٹیکس ریفنڈز ادا کئے ہیں وہ بھی صرف 25 اگست 2024 تک کے ریفنڈ پیمنٹ آرڈرز کیلئے ہیں۔ اس حوالے سے ٹیکسٹائل سیکٹر کی نمائندہ تنظیمیں پہلے ہی ریفنڈزکیلئےبجٹ میں مختص کی گئی 10 ارب روپے کی رقم کو ناکافی قرار دے چکی ہیں کیونکہ اس مد میں دسمبر 2022تک کے ریفنڈز کی ادائیگی کیلئے کروائی گئی حکومتی یقین دہانی کے مطابق 38 ارب روپے درکار ہیں۔ ریفنڈز میں تاخیر کے باعث برآمدکنندگان کو نہ صرف سرمائے کی قلت کا سامنا ہے بلکہ پیداواری عمل جاری رکھنے کیلئے بینکوں سے لئے گئے قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کے باعث مارک اپ کا اضافی مالی بوجھ بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برآمدات میں حالیہ اضافہ انڈسٹری کی استعداد اور عالمی سطح پر دستیاب مواقع کی نسبت انتہائی کم ہے۔ موجودہ حالات میں اگر حکومت انڈسٹری کو انرجی ٹیرف اور مارک اپ ریٹ میں کمی کے ذریعے ریلیف فراہم نہیں کر سکتی تب بھی ریفنڈز کی بروقت ادائیگی ممکن بنا کر برآمدات میں سات سے آٹھ ارب ڈالر کا اضافہ ممکن ہے۔ اس طرح نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بحران حل کیا جا سکتا ہے بلکہ برآمدات میں اضافے سے حکومت کو حاصل ہونے والے زرمبادلہ اور ٹیکس محصولات کی آمدن میں بھی اضافہ ہو گا اور مقامی سطح پر روزگار کے مواقع بڑھنے سے لوگوں کی زندگی میں بہتری آئے گی۔
واضح رہے کہ اگست کے مہینے میں حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش مسائل کا نوٹس لیتے ہوئے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو زیر التوا سیلز ٹیکس کی ایک ہفتے میں ادائیگی سمیت دیگر اقدامات کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر مملکت برائے خزانہ، محصولات اور توانائی علی پرویز ملک کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں انرجی ٹیرف بڑھنے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافے اور ریفنڈز کے اجرا میں تاخیر کے باعث سرمائے کی قلت کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے جن اقدامات پر اتفاق کیا گیا تھا ان پر تاحال عملدرآمد شروع نہیں ہو سکا ہے۔ اس وقت انڈسٹری کو جو مسائل درپیش ہیں ان کیلئے ہنگامی بنیادوں پر جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں سالہا سال سے زیر التوا ریفنڈز کا اجرا، توانائی کے ٹیرف کی ریشنلائزیشن، سرمائے تک آسان رسائی، شرح سود میں کمی اور ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کی فوری بحالی بھی اشد ضروری ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہیے کہ برآمد کنندگان پر مالی بوجھ کم کرنے اور ٹیکسٹائل سیکٹر میں لیکویڈیٹی کو بہتر بنانے کیلئےریفنڈز کی ادائیگی 72گھنٹوں کے طے شدہ وقت میں یقینی بنائے۔ اسی طرح صنعتی ٹیرف پر عائد تمام کراس سبسڈیز کو ختم کیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے فرٹیلائزر سیکٹر کو فراہم کی جانے والی سبسڈی کو ترجیحی بنیادوں پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں انرجی ٹیرف کو برآمدی حکمت عملی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہماری انڈسٹری کی عالمی سطح پر مسابقت برقرار رہے۔ اس کے علاوہ شرح سود کو دس فیصد سے کم کرکے سنگل ڈیجٹ پر لانے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ شرح سود کاروبارکیلئے صحت مندانہ ماحول کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ اسی طرح ایکسپورٹ فسلی ٹیشن اسکیم پوری ویلیو چین کو دستاویزی شکل دینے کیلئے اہم ہے اسے بھی بحال کرنیکی ضرورت ہے۔ یہ اقدامات اسلئے بھی ضروری ہیں کہ حکومت کی سفارتی کوششوں اور عالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں سے پاکستان کیلئے برآمدات بڑھانے کے مواقع مسلسل بڑھ رہے ہیں لیکن اگر اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش مسائل حل نہ کئے گئے تو اس صورتحال سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔