• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی معیشت کی بحالی کیلئے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کو ایک عرصے سے ناگزیر قرار دیا جارہا ہے۔ اس عمل کا آغاز پی آئی اے سے کرنے کی تیاری خاصی مدت سے جاری تھی۔ اس مقصد کے لیے مہنگے منتظمین کی خدمات بھی حاصل کی گئیں اور نجکاری کمیشن نے بظاہر اپنے طور پر بھی بڑی تیاری کی۔ خسارے کے بوجھ کا بڑا حصہ حکومت نے اپنے ذمے لیا لیکن دو روز پہلے بولی کے مرحلے میں شارٹ لسٹ کیے گئے چھ اداروں میں سے صرف ایک نے بولی دی اور وہ بھی حکومت کی مقرر کردہ85ارب کے مقابلے میں صرف دس ارب روپے کی۔اس صورت حال نے نہ صرف نجکاری کے عمل سے وابستہ مثبت توقعات کو متاثر کیا ہے بلکہ قومی معیشت کی بحالی کے امکانات کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حکومت پنجاب کی جانب سے پی آئی اے کو خریدے جانے کی تجویز کے زیر غور ہونے کی خبر دی ہے جبکہ کے پی کے وزیر اعلیٰ نے بھی اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت قومی ایئرلائن کو دس ارب سے زیادہ میں خریدنے کو تیار ہے۔ نواز شریف نے امریکہ میں پاکستانی تاجروں سے خطاب میں انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی ہے۔ بلاشبہ وقت کا تقاضا ہے کہ قومی معیشت کی بحالی کے عمل کو تیز کرنے کی خاطر پاکستانی سرمایہ کار آگے آئیں کیونکہ پوری دنیا میں اب کاروباری اداروں کے قومی یا سرکاری تحویل میں چلائے جانے کا سلسلہ بڑی حد تک ختم ہوگیا ہے اور نجی شعبے کو آزادی کے ساتھ معاشی عمل میں اپنا کردار ادا کرنے کے بھرپور مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔پاکستان میں بھی آج سے پچاس سال پہلے بینکوں اور تعلیمی اداروں سمیت تمام نجی کاروبار کے قومیائے جانے کا تجربہ کیا گیا تھا لیکن اس کے نتیجے میں یہ کاروبار سیاسی مفادات اور کرپشن کی نذر ہوگئے اور آخرکار انہیں دوبارہ نجی شعبے کو واپس کرناضروری ہوگیا۔پی آئی اے جیسا ادارہ جو ہمارا قومی فخر تھا وہ بھی بے پناہ سیاسی بھرتیوں اور اللوں تللوں کے باعث تباہی کی راہ پر چل نکلا اور مسلسل بھاری خسارے نے اس کی نجکاری ناگزیر بنادی۔تاہم مہینوں کی تیاری کے بعد محض دس ارب روپے کی ایک بولی سے واضح ہے کہ نیلامی کے مرحلے سے پہلے جو سوچ بچار ضروری تھی، اس میں بڑی کسر رہ گئی تھی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پی آئی اے سمیت نجکاری کے لیے زیر غور تمام سرکاری اداروں کے معاملے میں خوب سوچ سمجھ کر بہتر حکمت عملی وضع کی جائے۔ اس حقیقت کا ملحوظ رکھا جانا بھی لازمی ہے کہ سب کچھ ہنگامی طور پر نجی شعبے کے حوالے کردینا بھی قومی مفاد کے منافی ہوسکتا ہے۔اس کے نتیجے میں ناجائز منافع خوری کی خاطر سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کے کارٹیل یا گٹھ جوڑ وجود میں آجاتے ہیں ۔ہمارے ہاں شوگر اور سیمنٹ وغیرہ کے شعبے اسی طرح مافیا بن گئے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں کو بھی اس صورت حال کا سامنا ہے ۔ برطانوی حکومت نے حال ہی میں ٹرین سروس بہت مہنگی ہوجانے کی وجہ سے دوبارہ سرکاری شعبے میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان میں سندھ حکومت نے اس ضمن میں بیک وقت نجی اور سرکاری شراکت داری میں اداروں کو چلانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور طب وغیرہ کے شعبے اس عمل میں سرفہرست ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کا قیام بھی عام صارف کے مفاد کا تحفظ کرنے کی خاطر عمل میں لایا گیا تھا جس کے نہایت مفید نتائج سامنے آئے لیکن پھر کرپشن اور حکومت کی عدم دلچسپی اس کی ناکامی کا سبب بن گئی۔ تاہم نجی شعبے کو من مانی منافع خوری سے باز رکھنے کیلئے ایسے اقدامات ناگزیر ہیں اور پی آئی اے سمیت تمام متعلقہ اداروں کی نجکاری کے عمل کو ان سارے پہلوؤں پر سوچ بچار کرکے آگے بڑھانا ہوگا۔

تازہ ترین