رواں مالی سال کےوفاقی بجٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کو آمدن میں جولائی تا اکتوبر189ارب روپے کی کمی درپیش رہی اور یہ تحفظات بڑھ رہے ہیں کہ اگلے دو ماہ مزید شارٹ فال کا سامنا رہے گا۔تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ متذکرہ عرصے میں خسارہ 321ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔اس ضمن میںکہا جارہا ہے کہ یہ خسارہ پورا کرنے کیلئے حکومت کے پاس منی بجٹ لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں،اس کیلئے آرڈی ننس لانے کا مسودہ تیار کرلیا گیا ہے،جسے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گاتاکہ آئی ایم ایف کی جلد ہی اسلام آباد آنے والی ٹیم کو مطمئن کیا جاسکے۔حکام کے مطابق یہ وفد دسمبر میں پاکستان آئے گا۔منی بجٹ کے مندرجات میں جائیدادوں کی خریدوفروخت اور تمام درآمدات پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرحیں بڑھانا شامل ہے۔ایک تجویز ترقیاتی بجٹ میں مزید کمی سے متعلق بھی ہے ۔اس ضمن میں واضح رہے کہ جولائی تا ستمبر 2024کے دوران 1100ارب روپے کے مجموعی ترقیاتی بجٹ میں سے 22ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں۔جنگ کی رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کے ترجمان نے متذکرہ اطلاعات کی سرکاری طور پر تردید کی ہے۔یہ بات بجا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ ٹیکس ادا کرنے والے افراد پر پہلے ہی معاشی دبائو ہے جبکہ کسی بھی کاروبار سے متعلق ٹیکسوں میں ممکنہ اضافہ مندی پیدا ہونے اور مہنگائی بڑھنے کا باعث بنے گا۔معلوم کیا جانا چاہئے کہ پہلے چار ماہ کے دوران ٹیکس وصولیوں میں 189ارب اور 6ماہ میں 321ارب روپے کا شارٹ فال کیونکر آیاجبکہ بجٹ کی تیاری سے لے کر اس کی منظوری تک تمام تخمینوں پر ہر زاویے سے غوروخوض کیا جاتا ہے۔اس خسارے کو وفاقی بجٹ میں طے کیے گئےذرائع سے ہی پورا کیا جانا چاہئےجبکہ وزیراعظم شہباز شریف کے ایف بی آر اصلاحات پروگرام کو بہرصورت پایہ تکمیل کو پہنچنا چاہئے۔